اتوار, مئی 12, 2013

میری آواز سنو! (شمالی وزیرستان سے فریال زہرہ کی آواز)

محترم دوستوں، ٹیم آشیانہ  وزیرستان کے کارکنان اور ان کے گھر والے، آشیانہ کیمپ اور اسکول کو فنڈز دینے والے اور جہاں جہاں تک میری آواز یا بات پڑھی جا رہی ہے سب ہی کو شمالی وزیرستان سے سیدہ فریال زہرہ کی طرف سے اسلام و علیکم.

آج میں نہ ہی کویچندہ مانگو گی نہ ہی کسی قسم کی بھیک، نہیں ٹیم آشیانہ یا آشیانہ کیمپ اور اسکول کے لئے مدد کیاپپیال کروں گی. آج میں جو بھی لکھ رہی ہوں وہ میرے دل کی آواز ہے. اب جب برداشت نہیں ہورہا تو سوچا ہے کہ جو بھی میرے دل میں ہے وو آپ سب کے ساتھ یہاں بتا دوں.

موت برحق ہے اور ہر حال میں آنی ہے. جب مرنا ہے ہے تو ڈرنا کیسا؟ بہت در در کر جی لیا، مگر اب اورنہی. آگے بات بڑھنے سے پہلے میں اپنا تھوڑا سا تعارف کرا دیتی ہوں. میرا نام فریال ہے،پورا نام آپ اپر پڑھ چکے ہیں کراچی میں پیدا ہوئی مگر کچھ وجوہات کی بنا پر کینیڈا شفٹ ہوئی. ٢٠٠٥ کے زلزلے کے بعد جب سید عدنان علی نقوی بھائی نے فلاحی کاموں کا آغاز کیا تو ان سے رابطے میں آی اور گزشتہ ٢ برس سے ٹیم آشیانہ (شمالی وزیرستان) سے منسلک ھوں. 
گزشتہ ٢ برسوں کے دوران مجھ کوٹیم آشیانہ کے ساتھ فلاحی کاموں میں حصہ لینے کا بھرپور موقع ملا، میں کافی دفع پاکستان آی اور شمالی وزیرستان میں رہی. یہاں کے نامساعد حالات، اور بہت خراب صورت حال کے باوجود عدنان بھائی کا حوصلہ دیکھ کر مجھ کو بھی بہت ہمت ہوئی. اور میں نے ٢ ماہ قبل مکمل طور پر پاکستان شفٹ ہونے کا فیصلہ کیا اور سوچا کہ اپنی باقی زندگی میں عدنان بھائی کے ہمراہ فلاحی کاموں کے لئے وقف کر دوں گی.  میں کینیڈا میں اپنی نوکری کو چھوڑ کر پہلے اسلام آباد آی اور پھر میرانشاہ، شمالی وزیرستان منتقل ہو گئی، یہ میرے لئے پہلی دفع نہی تھا مگر اس دفع جذبہ اور جنوں پہلے سے کہیں زیادہ اور غیر متزلزل تھا. میں نے عدنان بھائی کو صاف صاف کہ دیا کہ میرا جینا مرنا صرف اور صرف پاکستان کے لئے ہوگا، اور میں یہاں (شمالی وزیرستان) میں رہ کر یہاں بچوں اور خواتین کفلہ و بہبود کے لئے کام کروں گی. اپنے پچھلے دوروں کے دوران میں نے مقامی زبان میں ٹھوڈی بہت مہارت حاصل کری ہے اور پوری کوشش کر کے میں خود کو یہاں کے ماحول کے مطابق ڈھال سکوں. اور یہاں کے لوگوں کے درمیان رہتے ہوۓ بچوں اور خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے کام کروں. 

ٹیم آشیانہ جو کافی عرصے سے شمالی وزیرستان میں فلاحی و سماجی خدمات سر انجام دے رہی ہے میرانشاہ سے قبل دتہ خیل میں اپنا کیمپ لگائے  ہوۓ تھی. مگر کچھ وجوہات کی بنا پر وہ کیمپ میرانشاہ منتقل کر دیا گیا. اور آج کل یہیں مقیم ہیں. 

شمالی وزیرستان میں فلاحی و سماجی خدمات سر انجام دیتے ہوۓ میں نے بہت کچھ سیکھا، یہاں کے رسم و رواج، یہاں کے لوگوں کے سوچنے کا انداز، زندگگزرنے کا طریقہ اور یہاں کے لوگوں کے مسائل. میںنے خدکوبچوں کی تعلیم و تربیت اور خواتین کی صحت سے متعلق فلاحی کاموں سے منسلک کر لیا. امید یہی کر رہی تھی کہ شاید میرے یہاں رہتے میں کچھ بہتر انداز میں فلاحی کام کر سکوں گی. مگر ابھی تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا. پورا شمالی وزیرستان زخموں سے چور چور ہے، یہاں کے مقامی رہنے والے  کبھی اپنوں کی جارحیت اور کبھی غیروں کے حملوں کا شکار رہتے ہیں. ہر طرف خوف و دہشت کے سائے ہمیشہ منڈلاتے  رہتے ہیں. مقامی حکومت اور قانون کی رٹ ڈھونڈھنے سے بھی نظر نہیں آتی. ہر طرف مختلف خان، ملک اور کچھ جنونیوں کا زور ہے. جس کا جہاں زور چلتا ہے وو اپنی حکومت بنا کر بیٹھا ہے. ایسے میں ہمارے پاک فوج کے جوان، ہمرے سیکورٹی اداروں کے جوان، حالت جنگ میں رہتے ہوۓ شمالی وزیرستان کو کسی نہ کسی طرح سے پاکستان سے جوڑے رکھے ہوۓ ہیں. مجھ کواور پوری ٹیم آشیانہ کو اپنے ان بہادر، نڈر جوانوں پر فخر ہے. آج اگر یہ جوان اپنی جانوں کی قربانی نہیں دیتے تو پاکستان کب کا ٹوٹ  چکا ہوتا. 

میں جب تک کینیڈا میں تھی تو میرے سامنے پاک فوج کا ایک ہی کردار تھا وہ تھا کہ یہ فوجی ہمیشہ حکومت میں رہنے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں اور کوئی نا کوئی آمر پاکستان پر قابض ہی رہتا ہے. مگر پاکستان آجانے کے بعد بہت قریب سے پاکستانی حالات، یہاں کے سیاسی و سماجی ماحول اور پاکفوج کے کردار کو دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا اور جو کچھ میں نے سکھا وو آج آپ کے سامنے لکھ رہی ہوں.

ایک بات آپ اچھی طرح سمجھ لیں، اگر آج پاکستانی اپنے پیروں پر کھڑا ہے، پاکستان کی سرحدیں اپنی جگہ موجود ہیں. تو صرف اور صرف پاک افواج کی وجھہ سے ہیں. پاکستان میں جب بھی انتشار، خلفشار بڑھا ہے تو پاک فوج نے اپنی ذمے داریاں نبھائی ہیں. اور بہت کامیابی سے نبھائی ہیں. شمالی وزیرستان میں پاک فوج کے کردار کو اور کامیابیوں کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا. مرنہسہ میں موجود اسپتال، اسکول اور تھوڑی  بہت زندگی کی علامت پاک افواج کی ہی مرہوں منت ہے. 

گزشتہ ٢ (دو) ماہ کے دوران میں نے یہاں بچوں کو مختلف بیماریوں سے مرتے  دیکھا ہے،خواتین کا کوئی پرسان حال نہیں. ٣ (تین) دفع آشیانہ کیمپ اور اسکول جو کہ ایک ٹینٹ میں بنایا گیا ہے مسمار کر دیا گیا، ٹیم آشیانہ کے کارکنان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گیں. ہمارے امدادی سامان کو لوٹا گیا، عدنان بھائی اور دیگر فلاحی کارکنان کو جن میں سے زیادہ تر کا تعلق یہاں (شمالی وزیرستان) سے ہی ہے، بری طرح مارا، پیٹا گیا. مجھ کو اپنی زندگی کی بقا کے لئے یہاں کے مقامی بھائی، بہنوں نیں پناہ دی. اور ہماری پوری ٹیم آشیانہ ٹوٹ پھوٹ گئی، آشیانہ کیمپ جلا دیا گیا، آشیانہ اسکول سے تمام درسی سامان، ادویات، اجناس لوٹ لی گیں. ہم سب اپنی زندگی سے مایوس ہو گئے اور پھر سوچا چلو سب ختم ہوا اپنے اپنے گھروں کو چلتے ہیں. ایسے میں مقامی لوگوں نے عدنان بھائی کو ہمت دی، پوری ٹیم آشیانہ کو پناہ دی اور کچھ لوگوں نے عدنان بھائی کی ملاقات ان لوگوں سے کروائی جو نہیں چاہتے تھے کہ یہاں کوئی اسکول بنے، یہاں کوئی امدادی، فلاحی کاموں کو سر انجام دے. اور پھر...... ہم میں سے ہر کسی کو پہلے یہ ثابت کرنا پڑا کہ ہم کتنے مسلمان ہیں؟ ہم کوکتنے اسلامی اراکین یاد ہیں اور ہم کتنے فرائض پر عمل پیرا ہیں. اللہ نے مدد کری اور ہم کسی حد تک کامیاب رہے. ہم کو بہت محدود پیمانے پر ایک دفع پھر سے فلاحی کاموں کوجاری رکھنے کی اجازت دی گئی، آشیانہ کیمپ اور اسکول کو ایک دفع پھر سے لگانے کی اجازت دی گئی. اس شرط پر کہ مقامی سردار کسی بھی وقت اسکول اور اس میں پڑھائے جانے والے نصاب کو چیک کر سکتے ہیں اور اگر جو یہاں پڑھایا جا رہا ہے اگر کسی بھی طرح سے شمالی وزیرستان کے ماحول اور تہذیب کے مخالف ہوا تو کیمپ کے ساتھ  ساتھ اسکول کوکسی بھی وقت بند کر دیا جائے گا اور ٹیم آشیانہ کے تمام کارکنان کو گرفتار کر کے مقامی عدالت (جرگہ) کے سامنے پیش کیا جائے گا،جہاں اگر ہمارا جرم ثابت ہوتا ہے تو سزا دی جائے گی اور شمالی وزیرستان سے بے دخل کر دیا جائے گا. ہم سب نے سکھ کا سانس لیا اور آئیکنائے جذبے کے ستہ فلاحی کام کرنا کیا.  شمالی وزیرستان کی تہذیب و تمدن کو   دیکھنا ہے تو صرف میرانشاہ تک آجائے یہاں پورے شمالی وزیرستان کے رہنے والے بہت بڑی تعداد میں رہتے ہیں، یہ لوگ میرانشاہ میں امن وسکون، روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں آئے ہیں. مگر افسوس کے یہاں بھی ان کو وہ سب نہیں مل سکا جس کی ان کو  تلاش ہے اسی مجبوری میں کچھ لوگ یہاں رہ گئے اور کچھ واپس اپنے اپنے علاقوں میں واپس چلے گئے. 

میں کیا کروں میری سمجھ نہیں آرہا ہے، میںابھی یہاں ہی روکوں یا واپس کینیڈا چلی جاؤں.میںیہاں کے لوگوں کے لئے فلاحی کام کرنا چاہتی ہوں، یہاں رک کر یہاں کے بچوں اور خواتین کی فلاح کے لئے کام کرنا چاہتی ہوں مگر کچھ لوگوں نے یہاں میرے کام کرنے پر پابندی لگا دی ہے. میںنے اس پر احتجاج بھی کیا مگر عدنان بھائی نے مجھ کویہی کہا کہ یہاں کہ حالت کے مطابق ہم کو کچھ بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے جس سے ہمارے فلاحی کاموں کے  مشن کو کسی بھی طرح کا کوئی نقصان پہنچے. میں نے یہاں بھوک دیکھی ہے، افلاس دیکھا ہے، مختلف بیماریوں سے بچوں اور خواتین کو مرتے دیکھا ہے، یہاں کے لوگوں کی بے بسی دیکھی ہے. یہاں کے لوگوں میں کرب اور اذیت محسوس کری ہے.  مگر اب میری بھی ہمت ختم ہوتی جا رہی ہے.

آشیانہ کیمپ کو ملنے والے فنڈز بہت کم ہو گئے ہیں. میں چاہ کر بھی بہت کچھ نہیں کر پا رہی ہوں. یہاں غذائی اجناس، ادویات نہ ہونے کے برابر ہیں. ہم کو آج کل اپنی بھوک مٹانے کے لئے مقامی لوگوں پر انحصار کرنا پڑھ رہا ہے. پوری ٹیم آشیانہ ایک دفع پھر سے آشیانہ کیمپ اور اسکول کو بنانے پر لگی ہوئی ہے اور میں ایک مقامی کارکن کے گھر میں بیٹھی ہوں. گھر سے بہار نکلنا بند ہے. عدنان بھائی کہتے ہیں کہ جب تک حالات ٹھیک نہیں ہو جاتے مجھ کو اسلام آباد یا پشاور چلا جانا چاہیے، حالات کی بہتری پر میں واپس یہاں آجاؤں. مگر میں اب کہیں نہیں جانا چاہتی کسی بھی قیمت پر نہیں. 

آپ سب میرے لئے دعا کریں کہ الله مجھ کو  ہمت دے، حوصلہ دے، اور میرے جوش و جذبے کو برقرار رکھے. انشا الله بہت جلد آشیانہ اسکول  میرانشاہ میں ایک دفع پھر سے قائم ہو جائے گا جہاں میں یہاں کی معصوم بچوں (لڑکیوں) کو تعلیم دوں گی.

جب جب موقع ملا میں ضرور آپ سے بات کروں گی. 

آپ سب کی دعاؤں کی محتاج 
سیدہ فریال زہرہ 
کارکن، ٹیم آشیانہ 
آشیانہ کیمپ / اسکول، میرانشاہ، شمالی وزیرستان.