منگل, ستمبر 18, 2012

توھین رسالت اور ہمارا کردار

محترم دوستوں، ساتھیوں  پڑھنے والے بھائی، بہنوں.
اسلام و علیکم!
دوستوں عدنان بھائی سے پشاور یونیورسٹی کے کچھ طلبا اور کچھ مقامی لوگوں نے ملاقات کری، عدنان بھائی کو توھین رسالت کی سازش اور مسلم دنیا میں پھیلی بیچنی کے بارے میں آگاہ بھی کیا، جواب میں عدنان بھائی نے جو کچھ کہا وہ یہاں لکھا جا رہا ہے
===========================================
 
مجھ (عدنان) سے کہا گیا کہ میں گستاخانہ فلم اور گستاخ رسول (س.ع.و) کے بارے میں کچھ کہوں؟ میں نے جواب دیا کہ میں کیا کہوں؟ کہنے کے لئے ہمارے پاس بہت بڑے بڑے عالم، مفتی، علماء کرام، مولوی حضرات موجود ہیں. جن کی علمی بصیرت پر کسی کو کوئی شبہ نہیں.
پھر بھی (یہاں شمالی وزیرستان) کے دوستوں کا اسرار ہے کے میں کچھ کہوں؟ مگر میں کیسے کہوں؟ کیا کہوں؟ میں  شاید ایک سہی مسلمان بھی نہیں. میری کسی حرکت کسی  بات سے، میرے نبی حضرت محمد (س.ع.و) کی کوئی سنت ادا ہوتی نظر نہیں آتی. میں تو اسلام کی کسی بھی احکام پر سہی طرح عمل کرتا نذر نہیں آتا. میری کیا مجال کہ میں کچھ کہ سکوں؟ کیا الفاظ لاؤں؟ کیسے کہوں کہ جس نبی نے ہم کو جینے کا مقصد سکھایا، جس نبی نے ہم (انسانوں) کو اس دنیا میں آنے کا مقصد بتلایا، جس نبی نے ہم کو ہمارے رب (الله پاک) کی پہچان کرائی، جس نبی نے رہتی دنیا تک کے انسانوں کو انسانیت کا سچا اور قابل عمل پیغام دیا اور خود عمل کر کے دکھایا، جس نبی نے ہم بھٹکے ہوۓ، ذلیل اور رسوا انسانوں کو زندگی کی حقیقت سے آشنا کیا، جس نبی نے خود تو مشکلات اور صعوبتیں برداشت کریں مگر انسانوں کو انسان بنا گئے. جس نبی کی ایک دعا سے لاکھوں انسانوں کی بخشش اور مغفرت ہو گئی، جس نبی کی معصومیت، شرافت، رحمت ہونے کی گواہی خد الله پاک نے اپنے پیغم (قرآن پاک) میں دی، ایسے پاک، معصوم اور صبر کرنے والے نبی کی توہین وہ بھی جدید انداز میں، نعوذباللہ! میں اپنی ذات میں کسی ایسی حرکت یا انسان کے بارے میں کہنا تو دور سوچنے کا بھی نہیں سوچ سکتا.

مگر، ایک بات جو مجھ تک مختلف طریقوں سے پہنچی، اس کا ملال اور رنج ہے اور رہے گا، میرے نبی کی امت، میرے نبی کی چاہت اور میرے نبی کی گواہی  والے میرے مسلمان بھائی، بہن اس فلم یا اس سے متعلق لوگوں کے خلاف جس طریقے سے احتجاج کر رہے ہیں وہ!
میرے نبی نے ہمیشہ ہم (مسلمانوں) کو صبر اور استقامت سے کام لینے کی تلقین کری، میرے نبی کے متعلق کچھ باتیں مجھ کو ابھی تک یاد ہیں جو کے میں نے شاید جب میں پانچویں یا چھٹی کلاس کا طالبعلم تھا اسلامیات کے مضمون میں پڑھی تھی. میرے نبی،  بھی کسی کی توھین کا ہتک آمیز بات کا جواب تشدد، غصے، یا اخلاق سے گری ہوئی حرکت سے ہر گز نہ دیتے تھے، بلکہ یہی دوا دیتے تھے کہ "الله پاک ہدایت دے." خود میرے نبی کے ساتھ کیسا کیسا برتاؤ کیا گیا، مکّہ شریف میں یہود و نصاریٰ وہ کونسا ظلم تھا جو نہیں کرتے تھے، وہ کونسی اخلاق سے گری ہوئی حرکت تھی جو میرے نبی کے ساتھ نہ کی گئی ہو، مگر جواب میں میرے نبی نے ہر حرکت اور بات کا جواب صبر، ہمت اور استقامت کے ساتھ دیا. خود کوئی ایسی حرکت نہ کری جس سے نبی کی نبوت اور الله کے پیغام کو پھیلانے میں کسی اور مشکل کا سامنا کرنا پڑے.
آج کا مسلمان (معاف کیجئے گا مجھ سمیت ہم سب اپنے مسلمان ہونے پر فخر تو کرتے ہیں مگر ہم صرف نام کے ہی مسلمان رہ گئے ہیں) جس انداز سے نبی کی ہتک اور توھین پر ورغلایا ہوا ہے، اور کسی کی بھی جان و مال کی پرواہ نہیں کر رہا رہا  سب کیا ہے؟ کیا یہی میرے نبی کا سکھایا ہوا انداز زندگی ہے؟ کیا میرے نبی نے ہم کو یہی سکھایا ہے کے کٹ جاؤ، مر جاؤ، فنا کر دو یا خد فنا ہو جاؤ؟  اس بات کا جواب میں خود نہیں دے سکتا یہ بات سری امت مسلمان کے لئے ہے ہم خود اپنے گریبان میں جھانکیں اور اس کا جواب  کریں.
اگر ہم سب (مسلمان) آج الله پاک کے بھیجے ہوے پیغام اور نبی کی سکھاۓ ہوے زندگی کے راستے پر چل رہے ہوتے تو آج ہم کو یہود، ہنود،  نصاریٰ اور صیہونی تاختوں کے اس فتنے کا سامنا نہ کرنا پڑھتا. اہل کفر تو چاہتے یہی ہیں کہ دنیا کے سامنے مسلمان امت کو ایک جنگلی، وحشی، درندہ صفت قوم کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں. اور  وہ چاہتے ہیں ویسا ہو بھی رہا ہے، اگر ہم نبی کے سکھاۓ ہوے راستے پر عمل کریں، ہماری زندگی سے نبی کی سنت دکھے، ہمارے باتوں میں الله کا پیغم ہو تو کسی کی کیا مجال کے وہ ہمارے نبی کے متعلق کوئی الٹی سیدھی بات کر سکے، میں تو یہ کہتا ہوں نبی تو بہت بری ہستی ہے کوئی کسی مسلمان کے خلاف بھی کوئی الٹی سیدھی بات نہیں کر سکتا. شرط صرف اور صرف اسلامی احکامات کے مطابق زندگی گزارنا ہے.
بیچارے احتجاج کرنے والوں کو تو خود نہیں پتہ کے نبی کی حرمت پر آواز اٹھانے والوں کے لئے الله پاک نے کس  قسم کا عذاب  تیار کر رکھا ہے، (دیکھیں قرآن اور احادیث) الله پاک نے اپنے پیغام کی حفاظت کا ذمہ خود لے رکھا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ جس کے ذریعے پیغام ہم تک پہنچایا اس کی حفاظت کا ذمہ بھی الله پاک نے لے رکھا ہے. اسلام کی حفاظت اگر الله پاک کر رہا ہو تو ہم کو ان فتنوں میں الجھنے کی کیا ضرورت ہے؟ ایک سہی اسلامی انداز زندگی موجود ہو تو ایسے معملات کے لئے احتجاج کی ضرورت نہیں پیش آتی بلکہ سیدھا جہاد کا حکم آجاتا. مگر افسوس عوامی سطح پر تو جانے کیا کیا ہو رہا ہے مگر سفارتی سطح  پر صرف گھٹی گھٹی آوازوں میں احتجاج ہو رہا ہے جو امریکہ کی سرکار کسی خاطر میں نہیں لاتی. 

یہ وقت جذبات سے کام لینے کا نہیں ہوش کے ناخن لینے کا ہے، اغیار، اہل کفر، یہود، ہنود، نصاریٰ ، سب ایک ہو کر صرف اور صرف  مسلمان کے خلاف کام کر رہے ہیں، اور ہم جو مسلمان ہونے کا دعوے کرتے نہیں تھکتے، خود کو ناموس رسالت پر قربان کرنے کی باتیں کرتے ہیں،  پتہ نہیں کتنے ہی فرقوں، نسبوں، اور مسلکوں میں بٹے ہوے ہیں، سب سے پہلے ہم (مسلمانوں) کو ایک ہونا ہوگا، صرف کلمے پڑھ کر نہیں بلکہ ہم کو ایک نبی کی امت اپنے عمل اور طرز زندگی سے بن کر دکھانا ہوگا.  اس کے بعد ہی ہم اپنے (مسلمانوں) کے خلاف ہوئی کسی سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے ہیں. نہیں تو علم اور عمل کے بغیر ایسے کسی جذبات  اور کام کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے. یہ صرف وقت کا زیاں، مال کی بربادی اور قتل و غارت ہی ہوگا. 

پہلے ہم ایک امت بن جائیں، ہم سب کو توبہ کی بہت ضرورت ہے، اصلاح کی ضرورت ہے، ایک ایسا معاشرہ جو سہی اور حقیقی معنوں میں مسلم معاشرہ  تشکیل دینے کی ضرورت ہے. اس بعد ہی ہم اغیار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں. ایک تقسیم اور بٹی ہوئی قوم کی حثیت سے ہمارا ہر احتجاج اغیار کے حوصلے تو ضرور بلند کر سکتا ہے ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتا. اگر وقت رہی اور زندگی نے وفا کری تو پھر انشا الله اس موضوع  پر بات ہوگی. فلحال تو خود مجھ کو اپنی اصلاح کی بہت ضرورت ہے، جب تک میرے عمل نبی کی بتائی ہوئی زندگی کے مطابق نہ ہوں میں بھلا کسی اور کو کیسے تنبیہ کر سکتا ہوں؟ آپ سب کی آمد کا بہت بہت شکریہ، آپ سب سے درخواست ہے کہ آپ میری لئے ہدایت کی دعا ضرور کریں. تاکہ میں اصلاح معاشرہ کے لئے کچھ بہتر کام کر سکوں. 

جزاک الله خیر!
دعاؤں کا محتاج 
سید عدنان علی نقوی 
انچارج کیمپ آشیانہ - دتہ کھیل خیل، شمالی وزیرستان