جمعرات, اپریل 05, 2012

وزیرستان (شمالی) دتہ خیل کی یادیں. Wazisitstan Dairy!

عزیز ساتھیوں اسلام و علیکم،
دتہ خیل تک آنا میرے لئے کسی معجزے سے کم نہیں تھا. یہاں کا ماحول، یہاں کے لوگ، یہاں کے دن اور رات، سب کے سب میرے لئے حیران کر دینے والے تھے، دتہ خیل  کے رہنے والے لوگ ایسا محسوس ہو رہا تھا کے جیسے کسی انجانے خوف کا شکار ہیں. 
اگلی صبح، فجر کی نماز کے بعد تک میں خود کو کافی حد تک سنمبھال چکا تھا. سب سے بڑا مسلہ موبائل فون کی سروس کا نہ ہونا ہے، جس کی وجہہ سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کے جیسے میں زمین پر نہیں کسی اور دنیا میں موجود ہوں. اس کے بعد یہاں کے لوگوں کی زبان پشتو جو ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی، اردو بولنے یا سمجھنے والے بہت ہی کم لوگ ہیں، عدنان بھی نے یہاں بھی ایک صاحب کی خدمات میرے حوالے کری جو میری بات کو پشتو میں ترجمہ کر کے دوسرے لوگوں کو سمجھاتے اور مجھ کو لوگوں کی بات سمجھاتے، ابتدا میں تھوڑی مشکلات ہوئی مگر بعد منی آسانی ہونے لگی، یہاں میرا کام ساتھ لایی گئی امداد کو بچوں میں تقسیم کرنا اور بچوں کو جب تک یہاں ہوں تعلیم کی روشنی سے آگاہی دینا تھا. 
بچے ہمیشہ میری مجبوری رہے ہیں، بچو سے پیار ہر کسی کو ہوتا ہے. مگر کیوں کہ میرا پیشہ ٹیچنگ رہا ہے اسی لئے بچوں کے مزاج کو سمجھنا اور تعلیم دینا نسبتاً آسان ہوتا ہے. 

تعلیم آخری حل: 
جہاں تک میرے تجربہ ہے چاہے وزیرستان ہو یا افغانستان، (یاد رہے میں ابھی تک افغانستان نہیں گیا ہوں) یا دنیا کا کوئی اور علاقہ، صرف اور صرف تعلیم ہی ایک واحد حل ہے جس کے ذرے لوگوں کے سوچنے کا طریقہ اور زندگی کا معیار تبدیل کیا جا سکتا ہے. گولی، لاٹھی، ڈرون، عسکری قوت سے حملہ کرنا، یا پھر خفیہ ایجینسیوں کی کارستانیاں، یہ سب کسی کام کی نہیں رہتی، ان سب سے وقتی طور پر تو کچھ فائدہ حاصل ہو سکتا ہے مگر اس سے عوامی جذبات میں شدید غصہ شامل ہو جاتا ہے جو کی کسی بھی معاشرے کے تباہی کا سبب بن سکتا ہے. اور میری معلومات اور تجربے کے مطابق یہاں وزیرستان (شمالی) میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے. یقیناً ہمارے ملک کے عسکری ادارے بہت مضبوط ہیں اور ہمارے جوان بہت بہادری اور بیخوفی کے ساتھ شدت پسندوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، جس کا سہی اندازہ پاکستان کے کسی بھی شہر میں بیٹھ کر کرنا بہت مشکل ہے یہ تو یہاں اکر ہی پتا چلا کے ہمارے جوان کسی کسی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں. بہرحال یہ باتیں تو عسکری لوگ ہی جانتے ہیں کے کب کس کے خلاف کسی کاروائی کرنا ہے. میں صرف اتنا لکھنا چاہتا ہوں کہ، کچھ لوگوں کی گلتی کی سزا پوری قوم اور نسل کو دینا کہی کا انصاف نہیں. یہاں دتہ خیل میں بھی کچھ اس ہی محسوس ہو رہا ہے، یہاں کوئی پلاننگ ہی نہیں، بس لوگ صبح اٹھتے ہیں، کسی نہ کسی کیمپ کے سامنے جا کر بیٹھ جاتے ہیں جہاں ان کو کھانے کے لئے کچھ مل جاتا ہے، وہ خود کھاتے ہیں اور اپنے بچوں کے لئے لڑ جھگڑ کے بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اسی بھاگم بھگ میں شام ہو جاتی ہے. کوئی یہاں بیٹھا ہوتا ہے کوئی وہاں بیٹھا ہوتا ہے. ایسے میں جب کسی کے پاس کرنے کے لئے کچھ نہیں ہوگا تو بچے، خواتین ، اور مرد جہادی تنظیموں میں شامل ہے ہونگے اور انجانے میں اسلام اور پاکستان کے خلاف کاروائی بھی کرے گے.
میں نے اپنے ان خیالات کا اظہار عدنان بھی اور کچھ مقامی لوگوں سے بھی کیا تو ان سب کا کہنا یہی تھا کہ، "منصور بھی، یہاں کوئی کام دھندھا نہیں ہے، ہم لوگ اگر یہاں سے پاکستان میں کہی بھی جاتے ہیں تو لوگ ہم کو بغیر کسی تصدیق کے دہشت گرد کہتے ہیں، کوئی ہم کو کام نہیں دیتا، کوئی ہم سے پوچھتا نہیں کے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں. الٹا پولیس اور دوسرے ادارے ہم لوگوں کو تنگ کرتے ہیں، ایسے میں ہم کیا کریں؟" یہ وہ سوال ہے جس کا مجھ کو جواب ڈھونڈھنا ہے، مگر میں تو صرف ایک فرد ہوں، یہ سوال تو پوری قوم کے لئے ہے. یہ سوال ہمارے اداروں کے لئے ہے، یہ سوال ہماری حکومت کے لئے ہے، کہ، "کیا وزیرستان (شمالی یا جنوبی) میں رہنے والا ہر انسان شدت پسند ہے، پاکستان اور اسلام مخالف ہے؟" میرے خیال میں ایسا بلکل نہیں ہے، کل تک میں بہت ڈرا ہوا سہما ہوا تھا. ہر آہٹ پر ڈر رہا تھا، انجانا خوف تھا، مگر صرف ٢ دن میں ہی یہاں کے لوگوں کی محبت، اور پیار اور اخلاص نے میرا سارا ڈر اور خوف دور کر ڈالا. میں بھی، لکھ کیا رہا تھا اور لکھ کیا ڈالا. 
میں صرف یہ لکھنا چاہتا ہوں کہ یہاں کے لوگوں کے ایک نسل تو ہم اسس نہ سمجھ میں آنے والی جنگ میں برباد کر چکے ہیں مگر، ابہ جو نسل بری ہو رہی ہیں، جوان ہو رہی ہے، ہم کو اس کا سوچنا ہے، ان بچوں کے پاس بھی کرنے کی لئے کچھ نہیں، یہ بچے بہت سوال رکھتے ہیں، اور ہم سب کو مل کر ہی ان بچوں کے روشن مستقبل کے لئے کام کرنا ہوگا. ٹیم آشیانہ کے مہربانی سے یہاں اکر بہت کچھ سمجھنے کو ملا، میں خود وزیرستان کو کو دہشت گردی کا ادارہ ہی سمجھتا تھا، مگر ایسا نہیں ہے، جب انسان کے پاس کرنے کے لئے کچھ نہیں ہوگا تو کوئی بھی ان کو ورغلا سکتا ہے اور وطن دشمن بنا سکتا ہے. یہاں میری ملاقات کچھ ایسے لوگوں سے بھی ہوئی جو ہم کو پاکستانی اور خود کو وزیر کہلانا پسند کرتے ہیں. 

ہم پاکستان کے لوگوں کے اور پاکستانیوں کے شکر گزار ہیں: 
آج شام ہی مغرب کی نماز کے بعد کچھ لوگ ٹیم آشیانہ سے ملنے آے، میں کھانا کھا کر فارغ ہوا ہی تھا کہ عدنان بھائی نہ بلوا لیا، میں جب ان کی طرف گیا تو ان میں سے ایک صاحب کھرے ہووے، سر پر بڑی سی کالے رنگ کی پگڑی، لمبے لمبے شلوار قمیض، سفید داڑھی، اور حلیہ سے ایک دم طالبان ٹائپ لگ رہے تھی، میں تھوڑا سا چونکا مگرخود کو سنمبھال کر اسی خلوص سے سلام اور مصاحفہ کیا جس ترہان انہوں نے مجھ سے کیا، میری طرف اشارہ کر کہ انہوں نے پشتو میں کچھ کہا جو میری سمجھ سے باہر تھا بعد میں ٹیم آشیانہ کہ ایک مقامی ساتھ نے بتایا کہ وہ میری ہمت اور بہادری کا کہ رہے تھے کہ میں خطروں کی سر زمین پر آیا ہوں. خیر، ان صاحب کو تھوڑا اردو بھی اتی تھی، انہوں نے جو کہا اس کی کچھ باتیں حذف کر کہ کچھ ہی باتیں یہاں لکھ رہا ہوں، 
"منصور بھائی، الله کے فضل اور کرم سے ہم سب مسلمان ہیں، اور آپس میں بھی بھائی بھائی ہیں، اور ایک مسلمان کا خوں دوسرے مسلمان پر حرام ہے، پھر بھی آپ کہ پاکستان والے مسلمان ہمارے وزیرستان والے مسلمان بھائی کا قتل کر رہے ہیں، اور ہمارے مہمانوں کو بھی بے دردی سے مر رہے ہیں، کیا ہم کو اپنے دفاع میں کچھ بھی کرنے کا حق نہیں؟ آپ کی پاکستانی فوج اور ----- امریکن ہمارے علاقوں میں گھس گے ہیں، اور ہمارے گھروں کو، ہمارے مال مویشیوں کو برباد کر دیا، ہمارے جوانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا. تو کیا ہم کو اس قتال کا بدلہ لینے کا حکم نہیں ہے؟ آیات کی تلاوت کری گی. اور ہم چاہتے ہیں ہم کو ہمارے جوانوں کا خوں بہا، اور ہماری املاک کے نقصان کی تلافی کری جاۓ، ہم کو ووہی عزت دی جاۓ جو دوسرے لوگوں کی ہے، ہم کو ہماری مرضی سے جینے کا حق دیا جاۓ - وغیرہ وغیرہ...."    
ان صاحب کے پرجوش تقریر کہ بعد ان کے ساتھ آے ہوۓ کچھ لوگوں نہیں دبے دبے الفاظ میں الله اکبر، اور جانے کون کون سی صدائیں بلند کری، مجھ کو سچی بات ہے بہت وحشت ہو رہی تھی، یہ تو کھلم خلا طالبان نظریے کا پرچار کرنا تھا. اور دوسرے لوگوں کو اکسانے کا سب سے آسان طریقہ. میں نے احتجاجی نظروں سے عدنان بھائی کی طرف دیکھا انہوں نے آنکھوں سے ہی جواب دیا کہ جواب دینا ہے مگر ان کے جذبات کو ختم ہونے دو، میں خاموش ہی بیٹھا رہا، ایک اور صاحب نے بھرپور پشتو زبان میں تقریر کر ڈالی، میں کیوں کے پشتو زبان سے نہ بلڈ ہوں تو میری سمجھ میں بہت کام ہی سمجھ آیا مگر میرے دوست اکرم بھائی صبح کچھ اردو میں لکھ رہے تھے جو ان صاحب کی تقریر ختم ہوتے ہی مجھ کو دے دیا اور جو کچھ اس میں لکھا تھا وہ میرے لئے نا قابل برداشت تھا. میں چاہے نماز نہ پڑھتا ہوں، لیکن ایک وفادار اور شعور رکھنے والا مسلم ہوں. جو جتنا بھی ترقی پسند کیوں نہ ہو جاۓ، مگر اسلام کی بنیادی تعلیمات سے انحراف نہیں کر سکتا. نہ ہی کسی ایسے عمل کی حمایت کر سکتا ہے جو کسی بھی طریقے سے اسلامی تعلیمات اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ہو. میں نے ہمت کر کے عدنان بھی اور ان سب حضرت سے اجازت لی کہ میں ان سب باتوں کے جواب میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، دل ہی دل میں الله کا نام پڑھا، درود پاک پڑھا اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کری، اس کہ بعد میں نے سورہ رحمان کی کچھ آیات پڑھی اور پاکستان میں پڑھائی جانے والی نہم جماعت کی انگریزی کی کتاب کے پہلے سبق " حضور پاک (س ع و) کا آخری خطبہ" والا مضمون جو مجھ کو ابھی تک بہت اچھی ترہان یاد ہے پڑھ ڈالا. میں شاید کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گیا تھا، مجھ کو عدنان بھی کا اشارہ ملا اور ایک گلز پانی خاموشی سے دیا گیا جو میں نے بلکل اسلامی طریقے سے نیچے بیٹھ کر پیا. (الله مجھ کو معاف کرے، کراچی میں ایسا بہت کام ہوا ہے کے میں بیٹھ کر پانی پیتا ہوں). میں نے ان سب حضرات کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا اور جو کچھ کہا وہ کچھ اس ترہان سے ہے. ( یاد رہے کے ان کے پاس ایک چھوٹا سا ریکارڈر بھی تھا اور جو بھی میں کہ رہا تھا وہ اس کو ریکارڈ کر رہے تھے، اس لئے میرے جذبات سے زیادہ احتیاط لازم تھی).
" میرے محترم دوستوں، آپ سب کی آمد کا بہت شکریہ، آپ کے جذبات اور خیالات سے آگاہی ہوئی، اور جو کچھ میں نے آپ کی زبانی سنا مجھ کو کوئی شک نہیں کہ آپ لوگ بھی ایک مخصوص نظریہ اور خیالات کے حامل ہیں. اسلام ایک امن، محبت، اور خلوص سکھانے والا مذہب ہے، جس میں قتال، جہاد اور لوٹ مار کی اجازت بلکل نہیں، اگر ایسا ہوتا تو آج ساری دنیا ہی مسلمان ہوتی، مگر الله پاک نے جو بھی حکم دیا ان سب ہی میں انسانیت کا درس دیا، ساری قرانی آیات، حضور پاک کے اعمال، اور احادیث اس بات کا ثبوت ہیں کے سہی اسلامی تعلیمات کیا ہیں، یہاں (وزیرستان) یا دوسرے علاقوں میں جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے، اس سب کے ہم ہی ذمے دار ہیں، نہ ہی کوئی سہی رہنما ملا نہ ہی کوئی سہی ہدایت، ہم کو حالت اور وقت کے حساب سے جو بھی سہی لگا ہم کرتے گئے اور انجانے میں ایسے لوگوں کے غلام ہو گئے جو نہ تو ہمارے دوست تھے نہ ہی اسلام سے وفادار. آج یہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ان سب میں ہمارا ہی قصور ہے. ہماری اس غلطی کے لئے انی والی نسلیں بھی ہم کو کبھی معاف نہیں کریں گی. وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوںمیں اسلامی شدت پسندوں نے حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف بہت زور و شور سے مہم چلائی، اور ان علاقوں کے سادہ لوح عوام ان لوگوں کی baton میں آگے کیوں کہ ہیں کا رواج ہے کے آپ کے علاقے کا برا یا کوئی مولوی جو بول دے وہی حق اور سچ ہے. مگر آج کے جدید دور میں یہاں نہ تو کوئی اور زریا ہے نہ ہی کوئی تعلم جو اپ لوگوں کو شعور دے، اسی وجہہ سے آج اپ لوگ ہم کو پاکستانی کہ رہے ہیں اور خود کو وزیری. آپ شاید بھول گئے ہیں کہ وزیرستان بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ایک حصہ ہے یہاں پر بھی حکومت پاکستان اور پاکستان کا قانون لاگو ہوتا ہے بلکل اسی ترہان جیسے ملک کے دوسرے حصوں میں. یہاں کے لوگوں کو بھی بلکل وہی حقوق حاصل ہیں جو پاکستان کے دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں. بس یہاں کے نظام میں خان، ملک یا سردار شامل ہیں جو حکومت کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں اور قانون کی عمل داری کو یقینی بناتے ہیں، میرے حساب سے بری گر بار یہاں ہی ہوئی کہ خان یا سردار کہتے رہے اور آپ کرتے رہے کیوں کہ آپ لوگوں کے پاس (معزرت) کے ساتھ تعلیم نہیں تھی جس کی وجہ سے شعور کی بھی کمی تھی. جہد کا جو فلسفہ آپ کو سکھایا گیا وہ اسلام کے حقیقی فلسفے سے بلکل مختلف اور علیحدہ تھا. جتنے لوگ اس جہاد نما جنگ میں مارے گۓ خود ان کو نہیں پتا تھا کہ وہ شہید بھی ہیں کے نہیں. 
میرے اتنا کہنے کی دیر تھی کے امیر صاحب نے عشاہ کی نماز کا اعلان کر دیا اور ہم سب نے نماز کی تیاری شروع کر دی. 
دوران وضو، عدنان بھائی نے میرے جذبات کا احترام کرتے ہوۓ مجھ کو کچھ اور باتیں بتائیں اور مجھ کو مزید نرم لہجے میں بات کرنے کے لئے کہا. اور ہم نماز کی تیاری میں لگ گئے. 

محترم دوستوں، انشا الله اگر زندگی نے وفا کری تو آج ہی اپنی ڈائری کے کچھ اور صفحات بھی لکھ ڈالوں گا.
جزاک الله خیر
آپ کا دوست آپ کا بھائی 
منصور احمد