ہفتہ, جولائی 21, 2012

شمالی وزیرستان: ٹیم آشیانہ کے کیمپ میں ایک بچے کی ناگہانی موت اور ہمارا غم


محترم دوستوں  ساتھیوں، اسلام و علیکم.
آپ کی دعاؤں، محبت ، خلوص اور مدد کے وعدوں کا بہت شکریہ، ہماری دعا ہے کہ الله پاک آپ سب کو ماہ رمضان کی برکتیں، نعمتیں اور رحمتیں عطا فرماے، ساتھ آپ سب کو سدا خوش رکھے - آمین.
ٹیم آشیانہ اس وقت دتہ خیل میں مقیم ہے، اور فلاحی خدمات میں مصروف ہے، جس کی تفصیلات جیسے ہی ہم تک پہنچتی ہیں ہم آپ کو آگاہ کرتے جاتے ہیں. آج کی ڈائری اور آشیانہ کیمپ شمالی وزیرستان کی تفصیلات جو ہم کو ملی ہیں وہ آپ کو دی جا رہی ہیں. الله پاک ہماری محنت، اور فلاحی جذبے کو قبول فرماے اور ہم کو مزید فلاحی کام کرنے کی توفیق، ہمت، صبر حوصلہ اور استقامت عطا کرے - آمین.
آج کی اپ ڈیٹ ڈائری ملاحظہ ہو:
=====================================================================

رات تو جیسے تیسے گزر ہی گئی، ساری رات دونوں بچوں کی فکر اور دیکھ بھال میں ہی سوتے جاگتے رہے، فجر کے وقت ڈاکٹر آصف نے بتایا کہ وہ جو بھی کر سکتے تھے کر چکے ہیں مگر دونوں بچوں کی حالت میں کوئی خاص بہتری نہیں آرہی ہے، اسی لئے دن ہوتے ہی ان بچوں کو جتنا جلدی ممکن ہو یہاں سے میران شاہ منتقل کر دیا جاۓ تو اچھا ہوگا. ہمارے پاس ٹرانسپورٹ کا کوئی انتظام نہیں ہے، اکرم بھائی سے ایک دفع پھر کہا گیا کہ وہی کچھ کر سکتے ہیں تو کریں.
 میں نے سب کے ساتھ بوجھل دل اور تھکن کے ملے جلے جذبات کے ساتھ نماز ادا کری، اور ایک دفع پھر بیمار بچوں کی طرف آگیا. مجھ کو کل لگائے گئے میڈیکل کیمپ کی تفصیلات بھی لکھنی تھی وہ رات کو ڈائری لکھنے کی وجہہ سے رہ گئی تھی تو اب میں نی ایک دفع پھر قلم اور کاپی اٹھائی اور کل کے میڈیکل کیمپ کے اعداد و شمار لکھنے شروع کیے.

گزشتہ روز لگائے گئے میڈیکل کیمپ کے اعداد و شمار:
کیمپ صبح ساڑھے آٹھ بجے لگایا گیا جو ظہر اور عصر کی نماز کے وقفے کے ساتھ شام ساڑھے پانچ بجے تک جاری رہا. میڈیکل کیمپ کل ٩٧ مریض لائے گئے جن میں ٦٣ بچے اور باقی مرد  شامل تھے


میڈیکل کیمپ میں ایک بزرگ خاتون (شاندانہ عمر ٨٠-٨٥ برس) کی لائی گیں. جن کو الٹی، پیٹ درد اور کمزوری کی شکایات تھی، ڈاکٹر آصف کے چیک اپ کرنے پر پتہ لگا ان خاتون میں (ایچ، آی، وی) بیماری ہو سکتی ہے (ان خاتون کو مقامی کارکنان کی مدد سے کل ہی میران شاہ منتقل کر دیا گیا)


میڈیکل کیمپ میں تین (٣) بچے جن کی عمریں ٨-١٢برس کے درمیان تھی لائے گئے، ان بچوں کو تیز بخار کے ساتھ جسموں پر دانوں کی شکایات تھی. ڈاکٹر صاحب کے چیک کرنے پر پتہ لگا کے یہ تینوں بچے خسرہ کا شکار ہیں. ان میں سے ایک بچے کے گھر والے ہمارے اسرار کرنے پر بچے کو میران شاہ لے گئے ہیں باقی دو (٢) بچے ابھی آشیانہ کیمپ میں ہی موجود ہیں جن کی حالت بہتر نہیں ہے.


ادویات جو ہم کو کارکنان نی امدادی طور پر روانہ کاری تھی اچھی خاصی اس کیمپ میں تقسیم کر دی گئی ہیں باقی ادویات اور آنے  والی امداد کے ساتھ ایک اور میڈیکل کیمپ جلد ہی لگایا جاۓ گا - انشا الله.


میرا ذاتی تجربہ اس میڈیکل کیمپ میں بہت تکلیف دے رہا ہے، میں چہ کر بھی یہاں کے لوگوں کے لئے کچھ خاص نہیں کر پایا ہوں صرف ذاتی حثیت سے تسلی  اور ادویات کی تقسیم میں ٹیم آشیانہ کے کارکنان کا ہاتھ ہی بٹا سکا ہوں.
میڈیکل کیمپ سے چیک اپ اور ادویات حاصل کرنے والے مقامی افراد کی فہرست اس رپورٹ کے ساتھ منسلک ہے.


 عدنان بھائی، اور دیگر کارکنان آج نماز فجر کے بعد سے ہی راشن کی تقسیم کے نظام کو ترتیب دی رہے ہیں. جو انشا الله آج شام تک تقسیم کرنا شروع کر دیا جاۓ گا.


اپنی رپورٹ لکھ لینے کے بعد میں آج ناشتہ (صبح کا کھانا) بنانے والے ساتھیوں میں گھل مل گیا، آج میری ذمہداری ہے کے میں کھانے کا انتظام سمبھالوں.


عدنان بھائی، اور فیصل بھائی (لاہور والے) آج یا کل کسی وقت پشاور اور اسلام آباد جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں اور آج ناشتے کے دوران اس بات پر بحث ہوئی کہ عدنان بھائی کے بعد یہاں (دتہ خیل، شمالی وزیرستان) میں کون ٹیم آشیانہ کی نگرانی کرے گا. اکرم بھائی، اور کچھ دوستوں نے میرا نام تجویز کیا. مگر عدنان بھائی نے (بوجھہ) میرا نام رد کر دیا. اور ایک مقامی کارکن، گلریز خان کو ٹیم آشیانہ کی نگرانی کی ذمہداری دینے کا فیصلہ کیا گیا. (مجھ کو نگران نہ بنانے کے فیصلے کی عدنان بھائی نے جو وجھہ بیان کاری وہ بلکل سہی اور درست تھی، میں اکثر بہت زیادہ جذباتی ہو جاتا ہوں اور جذباتی ہونے کے بعد کسی بھی کام کو سہی طرح یا عقل اور شعور کے ساتھ کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہوں، جبکہ یہاں کے حالات ایسے نہیں ہیں جن میں کسی بھی طرح کے جذباتی کام یا فیصلے کی کوئی گنجائش ہو) عدنان بھائی نے مجھ کو سب کے سامنے اور بعد میں علیحدہ سے اپنی ترجیحات سے آگاہ کیا جس سے میں پوری طرح مطمئن ہوں.


عدنان بھائی اور ٹیم آشیانہ کے مقامی کارکنان نی مجھ سے ایک دفع پھر ڈائری یا یادداشت لکھتے وقت بہت احتیاط سے کام لینے کو کہا، (ہو سکتا ہے کے میری پچھلی ڈائری یا تحریر میں کوئی ایسی بات سامنے آگئی ہو جو ٹیم آشیانہ یا مقامی افراد کے لئے  نقصان دے ثابت  ہو سکتی ہو، میں جو محسوس کرتا ہوں اور جو یہاں ہو رہا ہے وہ سادہ ترین الفاظ میں لکھ دیتا ہوں، ایک دفع پھر میں اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے کہوں گا کے وہ میرے صفحات یا ڈائری کو اپ ڈیٹ کرتے وقت سارے صفحات  کو ایڈیٹ کر کے لکھا کریں، اور کوشش کریں کے حقیقت کو مسخ نہ کیا جاۓ، ہم یہاں کسی بھی طرح کی مشکل یا مخالفت کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارا مقصد یہاں کسی گروپ، گروہ یا تنظیم کے حق میں یا مخالفت میں کم کرنے کا ہے، ہم یہاں صرف ایک ہی مقصد اور مشن لے کر یہاں بیٹھے ہیں اور وہ ہے سہی اسلامی تعلیمات کے مطابق انسانیت کی فلاح اور پاکستان کے بے بس لوگوں کے لئے کم کرنے کا)


اکثر یہ سوال میرے دماغ میں بھی آتا تھا کے اگر ہم کو فلاحی کام کرنے ہی ہیں اور انسانیت کی خدمات کرنی ہی ہے تو ہم یہاں اتنے دشوار گزر اور مشکل علاقے میں کیوں موجود ہیں؟ جہاں ہر وقت شدت پسندوں (اس لفظ کو لکھنے کے لئے منع کیا گیا ہے، مگر میں ان لوگوں کو اور کس لفظ سے لکھوں؟ اگر کوئی رہنمائی کرے تو میں شکر گزار رہوں گا). کی طرف سے کسی نہ کسی کروائی  کا خدشہ رہتا ہے، یا طالبان جیسے عناصر کی آمد کی فکر، یا کچھ نہیں تو ڈرون (بلی جیسے ڈرون) کی اچانک  ہتیار بند آمد کی تیاری. مگر کچھ عدنان بھائی، کچھ ٹیم آشیانہ کے کارکنان اور کچھ یہاں کے حالات کو سمجھتے ہوے اندازہ ہو گیا کے پاکستان کے کسی بھی علاقے میں فلاحی کام کرنا بہت آسان ہے، شہروں میں تو کوئی مسلہ ہی نہیں، مگر کوئی بھی یہاں (شمالی وزیرستان) یا ان جیسے علاقوں میں آنا اور کام نہیں کرنا چاہتا (وجوہات جو اپر بیان کری ہیں وہی ہیں). کوئی سیکورٹی  رسک کا بہانہ کرتا ہے کوئی کچھ بھی بہانہ، (اس سلسلے میں مجھ کو ذاتی تجربہ بھی ہے - کچھ تفصیل لکھ دیتا ہوں)


ملکی فلاحی اداروں سے بات چیت اور نتیجہ:
جب میں کراچی میں تھا تو اکثر عدنان بھائی اور ٹیم آشیانہ کی اپیل مجھ کو ملا کرتی تھی، میں نے عدنان بھائی کے کہنے پر ہی    کراچی میں موجود مختلف فلاحی اداروں سے رابطہ کیا جن میں دو (٢) بڑے فلاحی ادارے تھے، مجھ کو بہت افسوس ہے کے میں یہاں چہ کر بھی ان اداروں کے  نام نہیں لکھ سکتا. بہرحال، ان رابطوں کے نیتجے میں ان اداروں کے کرتا دھرتا افراد سے کافی ملاقاتیں ہوئی، کچھ ملاقاتوں میں ایسا بھی محسوس ہوا کے جیسے یہ لوگ بھی وہاں (شمالی وزیرستان) جا کر کام کرنا چاہتے ہیں. مگر جب کام کا وقت آیا تو تمام لوگ ہی ایک دم پیچھے ہٹ گئے ہن ہم کو کچھ امدادی سامان جیسے، کپڑے، کفن، کچھ ادویات  وغیرہ ضرور ملیں جس کے لئے ہم ان اداروں کے آج تک احسان مند اور شکر گزار ہیں. اس سے زیادہ یہ نامی گرامی ادارے  آج تک کچھ بھی نہیں کر سکے (ایک اور وجہہ جو مجھ کو سمجھ آتی ہے وہ یہی ہے کے یہاں کام کرنے کے دوران ان اداروں یا لوگوں کو وہ شہرت یا نام نہیں مل سکتا جو یہ لوگ شہروں میں دکھا دکھا کر کام کر کے حاصل کر سکتے ہیں، عدنان بھائی بلکل سہی کہتے ہیں کہ "جو دیکھتا ہے وہی بکتا ہے.")


اب ہم جیسے لوگ تو ہمیشہ ہی میڈیا یا نام، شہرت سے دور ہی رہتے ہیں، عدنان بھائی کا فلسفہ یہی ہے کہ جو فلاحی کام نام کے لئے کیا گیا وہ کام نہیں بلکے گناہ ہے اور اس طرح سے ہم الله کی نظروں میں اور اپنے کام سی مخلص نہیں رہ سکتے (اس کا تجربہ عدنان بھائی کو  بی بی سی اردو سروس کے لئے زلزلہ نامہ لکھتے وقت ہوا).


آج کا دن:
خیر آج کا دن بھی کچھ مختلف نہیں تھا. دونوں بچے جو آشیانہ کیمپ میں موجود ہیں کی حالت بہتر ہوتی نذر نہیں آتی، دونوں ہی بچوں کا بخار کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے اور اب بچوں کو الٹی کی شکایات بھی ہو گئی ہے، ڈاکٹر آصف پہلے ہی ایک رات گزار چکے تھے واپس میران شاہ جا چکے ہیں، عدنان بھائی ٢-٣ دن میں پشاور اور اسلام آباد جانے کا سوچ رہے ہیں. یہاں سے دور موجود کارکنان سے ملی معلومات کے مطابق ہمارے کارکنان اور ہمدرد ٹیم آشیانہ کے لئے امدادی سامان جمع کرنے میں مصروف ہیں.  (الله پاک ان کارکنان کی مدد کرے اور ہمت دے، مجھ کو بہت اچھی طرح اندازہ ہے کے ہم جیسے لوگوں کو امدادی سامان جمع کرتے وقت کس کس طرح کی باتیں سننا پڑتی ہیں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے).


راشن کی تقسیم کی منصوبہ بندی کرنے کے بعد ہم نے دستیاب راشن اور جن لوگوں (خاندانوں) میں راشن تقسیم کرنا ہے کی فہرست بنائی. میں hیہ کام پہلی دفع کر رہا ہوں تو پوری کوشش کر رہا تھا کے پرانے اور تجربہ کار کارکنان سے بار بار مشورہ کروں. ١١ بجے صبح تک میں لکھت، پڑھت کے کام سے فارغ ہو گیا تھا. اگلا مرحلہ ایسے گھر اور خاندانوں کی نشاندہی کرنے کا تھا جو راشن حاصل کرنے کے اہل ہوں، (میرے نزدیک تو یہاں ہر کوئی راشن لینے کا مستحق ہے، مگر ہمارے فنڈز اور دستیاب راشن اتنے نہیں کے ہم سب کو ہی راشن دے سکیں). میں یہ کام تنہا ہی کرنا چاہتا تھا، مقامی افراد کی مدد اگر لیتا تو بہت ممکن تھا کے وہ اپنے جن پہچان کے لوگوں سے ہی مجھ کو ملواتے، ابھی میں اس کام کے لئے نکلنے ہی والا تھا کہ، میرے اسکول کے بچے آنا شروع ہو گئے، میں نے صبح سی اس بارے میں سوچا ہی نہیں تھا، ہمارے پاس کل دو (٢) ٹینٹ ہیں ایک ٹینٹ میں ٹیم آشیانہ راشن کے پیکٹ بنا رہی ہے اور دوسرے ٹینٹ میں دونوں بچے موجود ہیں جہاں ان کے ساتھ آئے ہوے لوگ بھی. رات بھر ہلکی بارش ہوئی تھی جس کی وجہہ سے کھلی جگہ میں بیٹھنے کا کوئی انتظام نہیں ہو سکتا تھا. میں نی بچوں کو ظہر کی نماز کے بعد آنے کا کہا. بچے ادھر ادھر بکھر گئے اور میں ایک مقامی ساتھی کے ہمراہ پہلی دفع دتہ خیل کی گلیوں میں نکل پڑا (پہلی دفع اس لئے کے جب بھی میں یہاں آیا ہوں صرف آشیانہ کیمپ یا ان کے ساتھ جہاں جہاں میڈیکل کیمپ لگا وہی تک گیا ہوں، مقامی لوگوں سے راہ  و رسم اور تعلقات  قائم کرنے کا یا بنانے کا کوئی موقع نہیں ملا صرف آشیانہ کیمپ تک جو آیا اسی سے ہی بات ہو سکی. بلال اور اکرم بھی جو ہمیشہ ٹیم آشیانہ کے ہمراہ ہوتے ہیں تو ان سے بہت اچھی بات چیت ہو گئی ہے).


دتہ خیل، میران شاہ اور میر علی کے بعد شمالی وزیرستان کا مشور ترین علاقہ ہے یہاں کی اکثر آبادی مقامی قبائل پر مشتمل ہے، مقامی زبان پشتو یا وزیری ہے، یہاں کے لوگ نہایت سیدھے سادھے مگر اسلامی شدت پسندوں، طالبان یا رجعت پسندوں کی طرف مائل سوچ اور فکر کے حامل ہیں، خیبر پختونخواہ کے دوسرے علاقوں کی طرح یہاں کے لوگ بھی اپنی خواتین کو پردوں میں رکھنے کے حامی ہیں اور خواتین نہایت پردے میں رہتی ہیں، (میں نے خود بہت کم خواتین کو یہاں دیکھا ہے اور جو دیکھی بھی ہیں وہ بہت پردے میں اور امر رسیدہ خواتین ہیں). چھوٹی عمر کے بچے بچیاں مجھ کو یہاں گلیوں میں نظر آییجن کو گلیوں میں بھاگتا، کھیلتا دیکھ کر مجھ کو بہت اچھا لگا. میں ابھی تک بہت مشکل سے مقامی زبان سمجھ سکتا ہوں اسی لئے ایک مقامی کارکن میرے ساتھ تھا، ہم لوگ دتہ خیل کے بازار کی طرف نکل آے یہاں کافی چہل پہل تھی اور اکثر افراد رمضان کے حوالے سے خریداری کرنے میں مصروف تھے، (بازار کو دیکھ کر مجھ کو کراچی اور گھر یاد آگیا). یہاں ایک کریانہ کی دکان پر میں نے ایسے ہی کچھ چیزوں کے دام معلوم کے تو میری روح کانپ گئی ، شکر (چینی) ٢٠٠ (دو سو) روپے کلو مل رہی تھی. اس کے علاوہ بھی ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں. پتہ نہیں یہاں کے لوگ کیسے یہ چیزیں خرید رہے ہونگیں. بازار میں رش نہیں تھا بس افراد کی چہل پہل تھی، میں عدنان بھائی کی دی ہوئی پرانی لسٹ لے کر ان لوگوں سے ملنا چاہتا تھا جو پہلے ٹیم آشیانہ سے امداد لیتے رہے ہیں.


ظہر کی نمازتک میں اچھے خاصے لوگوں سی مل کر کافی معلومات  کر چکا تھا. اب صرف لسٹ کو آخری شکل دینا باقی تھا. جو کہ ٹیم آشیانہ کے کارکنان سے مشورہ کر کے ہی  ہو سکتی تھی.


ہم نے ظہرکی نماز سب ساتھیوں کے ہمراہ ہی ادا کری، نماز سے فارغ ہوے ہی تھے کہ  افسوس ناک خبر نے ہمارے ہوش اڑا دے.


آج کے دن کی اور میرے لئے نہایت بری اور افسوسناک خبر:


آشیانہ کیمپ میں جو دو (٢) بیمار بچے موجود ہیں ان میں سے ایک بچے کی حالت بہت زیادہ خراب ہو چکی تھی. ہم سب بھاگے بھاگے جب ان بچوں کی طرف پہنچے تو بچا بہت بری حالت میں تھا ہمارے پاس اس وقت کسی ڈاکٹر کا انتظام نہیں تھا، عدنان بھائی نے چیختے ہوے اکرم بھائی اور باقی کارکنان کو آس پاس کسی  ڈاکٹر کے انتظام کرنے کے لئے کہا. جو لوگ یہاں کے مقامی تھے کسی ڈاکٹر کو دیکھنے کے لئے گئے. میرے خود کی ہمت جواب دے رہی تھی. بہت مشکل اور کرب ناک وقت ہم لوگ یہاں دیکھ رہے ہیں. میرے ہاتھ خد با خد دعا کے لئے اٹھ گئے. (یا الله، یہ کیسا امتحان ہے؟ ہم یہاں صرف تماشا ہی دیکھتے رہیں گے؟ یا یہاں ان لوگوں کی کی مدد کرنے کے لئے کوئی ہے گا بھی یا نہیں؟) اکرم بھائی واپس آئے تو ان کے ساتھ ایک صاحب موجود تھے جو ڈاکٹر تو نہیں مگر اچھے پیرا میڈیک ضرور تھے. انہوں نی بچے کی نبض چیک کری اور بخار بھی بچے کا بخار بہت تیز  تھا اور بچہ بری طرح کراہ رہا تھا. ان صاحب نے ہم کو بتایا کے جو دوائیں ہم اس بچے کو دے رہے ہیں وہ اس وقت کے لئے ناکافی ہیں، بچے کو اسپتال کی اور بہتر دواؤں کی فوری ضرورت ہے. یہ اب ہمارے لئے ممکن نہیں رہا تھا. بس دعا ہی کر سکتے ہیں. 


اورمیں سارے کام چھوڑ کر اس بچے کے ساتھ ہی بیٹھ گیا میرے اسکول کے جو بچے آئے تھے ان بچوں کو عدنان بھائی اور بلال نے دوسرے ٹینٹ میں بیٹھا کر آگے کا سبق دیا ہم سب ہی بہت بری طرح پریشان تھے کہ کیا کری؟ الله پاک ایسا مشکل وقت سے ہم سب کو محفوظ رکھے - آمین. بچے کے ساتھ آئے ہوے اس کے گھر والے اب صورت حال کو سمجھ رہے تھے اور ہم سی بچے کو واپس اپنے گاؤں (گھر) لے جانے کی ضد کر رہے تھے، یہاں (دتہ خیل) سے ان کے گاؤں کا سفر ایک گھنٹے کا ہوگا راستہ انتہائی دشوار گزار ہو چکا ہے. ہلکی ہلکی بارش نے سفر اور مشکل کر دیا ہے. ہم سب بہت بری طرح الجھن میں تھے کے کیا کریں اور کیا نہ کریں. میں آج پہلی دفع عدنان بھائی کی طرح بار بار آسمان کی جانب دیکھ رہا تھا. اور کسی غیبی مدد کا انتظار کر رہا تھا. مگر کوئی مدد نہ آئی.


قریب تین (٣) بجے اس بچے کی سانسیں بہت تیز ہو چکی تھی ہمارے پاس اس بچے کے سر اور پیروں کو بار بار دھونے کے علاوہ کوئی اور علاج نہیں تھا. 
اور اس بچے کے والد اس بچے کا سر اپنی گود میں رکھ کر رو رہے تھے. ساتھ ساتھ ہم سب دعا کر رہے تھے کے الله پاک اس بچے کو صحت عطا کرے، مگر الله پاک کو کچھ اور ہی منظور تھا.


بچے کی سانسیں آہستہ آہستہ تھمنے لگیں مجھ کو لگا کے بچا اب شاید نارمل ہو رہا ہے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا پتہ نہیں کب کی کب میں اس بچے کی سانسیں پوری طرح تھم چکی تھی اور بچے کا جسم بلکل سکوں کی حالت میں آچکا تھا، اس بچے کے باپ نے جب بچے کو زور زور سے آوازیں دینا شروع کاری اور چیخنے لگا تو اسی وقت اندازہ ہوا کہ اب یہ بچہ ہمارے درمیان نہیں رہا. میری حالت کا کیا لکھوں ٹینٹ کے باہر موجود کارکن اندر آئے اور بچے کی طرف دیکھا میری حالت بھی سہی آہی تھی، ایک بچہ ہماری پوری کوشش کے باوجود ہم کو چھوڑ کر جا چکا تھا. ہم سب کی آنکھوں میں آنسو تھے، بچے کا باپ مقامی زبان میں چیخ چیخ کر الله سے فریاد کر رہا تھا. میں اب بھی کسی معجزے کی امید کر رہا تھا، (یہ بھی بھول گیا تھا کے معجزے تو الله کے بہت خاص بندوں کے لئے ہوتے ہیں، ہم تو بہت گنہگار لوگ ہیں. ہماری دعا بھی جانے قبولیت کی کس منزل پر جا کر روک جاتی ہوگی).


اس بچے کا نام گلریز خان تھا، والد نہ نام اباسین خان.  اس بچے کو  پچھلے ٣ہفتوں سے بخار کی شکایات تھی جو کم ہونے کے بجائے بڑھتی چلی گئی، جس گاؤں سی یہ لوگ آئے تھے وہاں ڈاکٹر تو کیا کوئی ڈسپنسری بھی موجود نہیں. دتہ کھل میں صرف ایک اسپتال ہے وہ بھی نام کا جہاں ہمارے پاس موجود ادویات سی بھی کم ادویات ہوتی ہیں. یہ لوگ ہمارے میڈیکل کیمپ کا سن کر اس بچے کو یہاں لائے تھے اس امید پر کے شاید ہم اس بچے کے لئے کچھ کر سکیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا یہ بچا ہمارے ہی سامنے دم توڑ گیا اور ہم صرف دیکھتے ہی رہ گئے. عدنان بھائی ٹینٹ سے باہر جا چکے تھے. اکرم بھائی نہیں ہم سب کو ہمت دلائی، بچے کے گھر والوں سے مقامی زبان میں بات کر کے اس بچے کو واپس لے جانے کا انتظام کرنے چلے گئے. بچے کے ساتھ آئے ہوے ایک اور صاحب نے بچے کے پیروں کو اپس میں جوڑ کر انگھوٹوں میں گرہ لگی سر اور منہ کے درمیان پٹی باندھی اور بچے کے اپر ایک چادر ڈال دی، میں تھوڑا سمبھلا تو دوسرے بچے کی فکر ہوئی اس بچے کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں تھی، میں نے لڑنے والے انداز میں دوسرے بچے (اسد) کے گھر والوں کو سمجھانا چاہا کے خدا کے لئے اس بچے کو مرنے سے بچا لو، ہم لوگ بہت کمزور ہیں، ہمارے پاس اتنی ادویات اور انتظام نہیں کے اس بچے کا سہی علاج کر سکیں، آپ لوگ اس بچے کو ابھی میران شاہ لے جو شاید وہاں اس بچے کا سہی علاج ہو سکے، بچے کے ساتھ موجود اس کے بھائی اور والد نے رقم نہ ہونے کا کہا میں نے بلال کو عدنان  بھائی کو اندر بولنے کے لئے کہا، وہ عدنان بھائی کو بلا لایا تو میں نہیں ان کو سری صورت حال سے آگاہ کیا. جواب میں انہوں نے کہا کے ہم کچھ انتظام کرنے کی کوشش کرتے ہیں. میرے پاس اپنے ١٥٠٠ (پندرہ سو روپے) تھے وہ میں نے عدنان بھائی کو دے عدنان بھی نی باہر جا کر باقی ساتھیوں کے سامنے ساری بات رکھی اور قریب ٣٠٠٠ (تین ہزار روپے) جمع کر کے دوسرے بچے (اسد) کے والد کو دیے. اتنی دیرمیں اکرم بھائی بھی واپس آگئے تھے، انتقال کے ہوے بچے کو واپس اس کے گاؤں منتقل کرنے کے لئے ایک خچر گاڑی کا انتظام ہو چکا تھا. ہلکی بارش کی وہا سے راستے خراب تھے اسی لئے کوئی اور گاڑی شاید وہاں نہیں جا سکتی تھی، میں نی خود آج صبح یہاں صرف کچھ موٹر بائیک ہی دیکھی تھی یا ایک ڈاٹسن جیپ اس کے علاوہ مجھ کو کہی کوئی دوسری گاڑی نظر نہیں آئی. بچے (گلریز)  کے والد نے اپنی تنگدستی کے بارے میں بتایا ان کے پاس بھی کفن دفن کے لئے کوئی انتظام نہیں تھا. ٹیم آشیانہ کے پاس ہر وقت ٨-١٠ کفن موجود ہوتے ہیں (عدنان بھی کے مطابق، ہم کو اپنے کفن کا کپڑا ایسے حالت میں ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا چاہیے)، ایک اور ساتھی نے عدنان بھائی کے کہنے پر ان کے والد کو کفن کا کپڑا دیا اور ساتھ کچھ رقم (شاید ١٠٠٠ روپے) دی. بچے کے والد اور گھر والے کافی سمبھل چکے تھے اور سورج غروب ہونے سے پہلے اپنے گھر (گاؤں) پہنچ جانا چاہتے تھے، بچے کو لے جانے کی  تیاری کری. دوسرے بچے کو ایک اور خچر گاڑی سے میران شاہ منتقل کرنے کا انتظام ہو چکا تھا. ایک مقامی ساتھی بچے کی دیکھ بھال کی غرض سی ان کے ساتھ رہا تھا. پہلے انتقال ہوے بچے (گلریز) کو رخصت کرنے کی تیاری ہوئی. میں جو بہت دیر سے بہت ضبط، صبر اور تحمل کا مظاہرہ کر رہا تھا اب برداشت نہ کر سکا، (میں نے اس بچے پر بہت  محنت کری تھی،  مگر مری اور ہم سب کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوئی، کاش کے ہم اس بچے کے والد کو کل ہی سمجھا سکتے اور ان کے جانے کا انتظام کر سکتے) مگر کوئی کیا کر سکتا ہے ہم ان لوگوں سے لڑ نہیں سکتے، یہ لوگ بھی جب پانی سر سی گزر جاتا ہے  کچھ سمجھتے ہیں. ہم سب ایک دوسرے کے گلے لگ کر بہت روے مقامی لوگ بھی ہمارے ساتھ آ گئے ہم کو حوصلہ دیا اور  سمجھایا کے اسی میں الله کی رضا تھی. (کاش کے ہم الله کی رضا کو سمجھ سکیں) 
یہ لوگ گلریز کو لے کررخصت ہوے،  عدنان بھائی جو بہت ہمت اور صبر والے ہیں نے بھی ضبط کے سارے بندھن توڑ دیے. اور ایک طرف جا کر بیٹھ گئے، میں ان کی طرف جانا چاہتا تھا مگر مجھ کو دوسرے ساتھیوں نے روک دیا. سب نے یہی کہا کے اس وقت عدنان بھائی کو اکیلا ہی رہنے دو.  (شاید یہ ہدایت خود عدنان بھی نے دی ہوں). دوسرے بچے اسد کو میران شاہ لے جایا جا چکا ہے، الہ پاک اس بچے کو صحت دے اور میران شاہ میں موجود طبی سہولیات سے اس بچے کا علاج ممکن ہو سکے - آمین.


میں آج اس سے زیادہ اور کچھ نہیں لکھ سکتا. مایوسی حرام ہے، مجبوری کا رونا کمزور لوگ روتے ہیں تو ایسے میں میں خود کو اور ٹیم آشیانہ کو کیا سمجھوں؟ خود کو کیسے  دوں؟ یہی پاکستان ہے جہاں ایک طرف علاج کی بہترین سہولیات سے آراستہ اسپتال ہیں جہاں اس ملک کے امرا اور سرکاری لوگ علاج کرتے ہیں، یہی پاکستان ہے جہاں سڑکوں پر لوگ مر جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں، اور یہی پاکستان ہے جہاں دتہ خیل میں خسرہ کی بیماری میں مبتلا ایک بچہ صرف اس لئے مر جاتا ہے کے اس پورے علاقے میں ڈاکٹر تک موجود نہیں. (اس سے زیادہ میں اور کچھ نہیں سوچنا چاہتا نہ ہی لکھنا چاہتا ہوں)


=============================================
امی کے نام:
پیاری امی جان، اسلام و علیکم و قدم بوسی!
آپ کو ایک خط لکھا ہے جانے وہ خط کب آپ کو ملے، جس جگہ میں موجود ہوں یہاں کسی بھی قسم کا رابطہ کرنا ممکن نہیں، یہاں بجلی تک نہیں تو موبائل فون یا کسی اور چیز کا انتظام نہیں. اور ہم لوگ (ٹیم آشیانہ) خود کے لئے دو وقت کے کھانے کا انتظام نہیں کر سکتے توکسی اور چیز کا انتظام کس طرح ممکن ہے؟ 
آج آپ کے بیٹے کے سامنے جو خود کو ایک جذباتی اور بہت اچھا فلاحی کارکن سمجھتا ہے، ایک بچہ اپنی جان سے گیا، مجھ کو اچھی طرح یاد ہے جب بھی کراچی میں خسرہ کی وبا کا امکان ہوتا ہے آپ ہم سب کو اور گھر کے بچوں کے لئے کس طرح گھریلو ٹوٹکوں اور ادویات کا انتظام کرتی ہیں. یہاں رابطہ نہ ہونے کے سبب میں آپ سی کچھ بھی نہ پوچھ سکا. بس جو کچھ یہاں کے لوگوں کے ساتھ مل کر کر سکتا تھا کیا. آپ کسی بھی طرح فریال باجی سے رابطہ کر کے ان کو کچھ احتیاطی تدابیر بتائیں. یہاں خسرہ بہت تیزی سے پھل رہا ہے. 
امی جان، میں یہاں خود کو سبب کے ہوتے ہوے بھی بہت کمزور، تنہا اور بے بس سمجھ رہا ہوں، سچ کہوں تو میں واپس آنا چاہتا ہوں، مگر پھر سوچتا ہوں کہ واپس تو آنا ہی ہے. تو کیوں نہ کچھ اور وقت یہاں کے لوگوں کے لئے کچھ کم کر کے ہی آؤں. میرے لئے بہت بہت بہت دعا کریں، میں کمزور نہیں ہونا چاہتا، آپ کا بتا ہوں اور آپ کی سکھائی ہوئی ایک ایک بات پر عمل کرتا ہوں. نماز پڑھتا ہوں دل سی الله سی فریاد کرتا ہوں. ہر وقت یہی امید کرتا ہوں کے الله پاک غیب سی ہماری مدد کرے گا مگر ابھی تک کوئی مدد نہیں ملی. مگر امید کم نہیں ہونے دیتا. یہاں کے حالت کا علم آپ کو میری ڈائری پڑھ کر ہو رہا ہوگا. آپ ہم سب کی ہمت کے لئے اور مدد کے لئے دعا کریں، باقی حالات کا علم آپ کو میرے خط ملنے پر ہو جاۓ گا. 
آپ کی بہت یاد آتی ہے. آپ کا خط میری جیب میں ہی پڑھا رہتا ہے. ساتھ ہی ان بچوں کے لئے بھی دعا کریں جو یہاں بری حالت میں ہیں. یہاں کے لوگنو کے لئے بھی دعا کریں کے الله پاک ان سب کو مشکلات سی نکالے. 
انشا الله بہت جلد ملاقات ہوگی.
آپ کا بیٹا.
دعاؤں اور مغفرت کا محتاج