منگل, جولائی 17, 2012

دتہ خیل، شمالی وزیرستان، مقامی بڑوں سے ملاقات

اسلام و علیکم 

گزشتہ ڈائری میں ذکر کیا تھا کہ میں اور عدنان بھی ایک اور ساتھ کارکن (ٹیم آشیانہ) کے ساتھ دتہ خیل کے بزرگوں اور بڑوں سے یہاں تعلیمی سرگرمیاں شروع کرنے کے لئے اجازت لینے جانے کی تیاری کر رہے ہیں.
ہمارا ادمدی سامان تو آگیا ہے مگر ابھی تک ہم کو تفصیلات کا نہیں پتہ کے سامان میں کیا چیز کتنی مقدار میں ہے، لگتا ہے کے آج کی رات بھی جاگ کر ہی گزارنا ہوگی. ہم عشا کی نماز کے بعد لوگوں سے ملنے کے لئے جانے کی تیاری کر ہی رہے تھے، بلال محسود اپنے گھر چلا گیا تھا. اور باقی ساتھ امدادی سامان کے ساتھ آئے ہوے کارکنان کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھے. میں دل اور دماغ کو سمجھا رہا تھا کہ وہاں کیا بات کرنا ہے؟ پتہ نہیں یہ کون لوگ ہونگیں؟ ان کے کیا دماغ ہونگیں؟ اور کیا سوچ ہوگی؟ پھر بھی الله کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوے مجھ کو اپنی بات سمجھنے کی پوری کوشش کرنا تھی پھر ان لوگوں نہیں ہم کو رات میں ہی کیوں بلایا؟ یہ سوال بھی دماغ میں بار بار آرہا تھا. عدنان بھائی، نے کہا کے ہم اب جانے کو تیار ہیں. میں نی دل ہی دل میں آیتہ الکرسی پڑھی. الله سے مدد کی بھیک مانگی اور عدنان بھائی کے ساتھ نکل پڑا، ہمارے ساتھ ٹیم آشیانہ کے مقامی کارکن اکرم بھائی بھی موجود تھے. اکرم بھی کے بارے میں یہی سنا ہے کہ یہی عدنان بھائی کو یہاں (شمالی وزیرستان) لے کرآئے تھے. اور جب سے عدنان بھائی یہاں فلاحی کام کر رہے ہیں اکرم بھائی ٹیم آشیانہ کے ساتھ ہیں اور ہر اچھے برے وقت میں ٹیم کا اور کارکنان کا ساتھ دیتے ہیں. میرے پہلے وزٹ کے دوران اکرم بھائی نے ہی میرے دل سے ڈرون جہازوں کا ڈر اور خوف دور کیا تھا. اکرم بھی مقامی زبان کے علاوہ فارسی، ہندکو، اردو اور پنجابی زبان جانتے ہیں. اور میں نے ان کو تھوڑا بہت انگریزی زبان بھی سکھا  دی ہے.  ہم کہاں جا رہے تھے اس کا پتہ صرف اکرم بھائی کو ہی تھا. اس علاقے کے بڑے اور جرگے کے ممبر ہیں. اردو زبان سمجھتے ہیں اور بہت نیک صفت انسان ہیں. 
میں اب آگے کیا لکھوں؟ مجھ کو اجازت نہیں ہے کے میں وہ باتیں بھی لکھوں جو لکھنی چاہیے تاکہ لوگ کچھ تو سمجھیں میں کچھ تو سمجھوں، مگر ووہی سیکورٹی رسک کا بہانہ اس بات پر میری عدنان بھائی سے بہت بار بحث ہوئی ہے کے ہم جو کر رہے ہیں اور جو دیکھ رہے ہیں ووہی لکھ دینا چاہیے مگر عدنان بھائی ہمیشہ مجھ کو کبھی نرمی اور کبھی سختی سے روک دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "وقت آنے پر سب سمجھ جاؤ گے،" اب پتہ نہیں وہ وقت کب آئے گا. 
خیر! شام سے ہوئی بارش کی وجہہ سے راستے میں پھسلن زیادہ تھی. ہم ایک مقامی مسجد کی طرف گئے تو وہاں ہم سے پہلے دو  (٢) قبائلی موجود تھے. یہاں بجلی یا روشنی کا کوئی انتظام نہیں ہے. میرے خیال سے بجلی صرف میران شاہ تک ہی موجود ہے اور اگر آگے ہے بھی تو نہیں ہوتی. اندھیرے میں سہی طریقے سے چہرے نہیں دیکھ سکا. سلام بہت گرم جوشی سے ہوا اکرم بھی نی اپنی زبان میں ان کو ہمارے بارے میں بتایا اور ہم لوگ ان کے پہچے پیچھے چل پڑے. عدنان بھی سارا راستہ کچھ نہیں بولے میں بھی صرف یہی کہ سکا کی "اور کتنا چلنا ہوگا؟" ہم مقامی مسجد سے یہی کوئی ١٠ منٹ تک پیدل چلتے رہے ہونگے تو آگے دو (٢) لوگ اور ملے یہ ہتھیار بند لوگ تھے یہ میرے لئے سہی نہیں تھا، ہم لوگ کوئی جنگ کرنے یا کسی کو قتل کرنے کے مقصد سے نہیں جا رہے تھے تو ان لوگوں سے ملوانے کا کیا مطلب. میں کچھ کہنے ہی والا تھا کے عدنان بھائی نے میرا ہاتھ دبا کر مجھ کو روک دیا، ہم ان لوگوں سے سلام دوا کر کے آگے بڑھ،. مزید ١٠-١٥ منٹ تک پیدل چلنا پر پھر کچھ روشنی نظر آئی. یہ جگہ دتہ خیل کے مقام سے تھوڑا آگے ہے. سب سے الگ تھلگ کچھ مکان جو شاید ام نظروں سے نظر بھی نہ آے. کچھ لوگ ادھر ادھر بیٹھے تھے، حلیہ تو قبائلی تھا مگر . . .  خیر ہم کو ایک جھونپڑی نما حجرے میں لے جایا گیا جہاں کوئی نہیں تھا، میں اکرم بھائی اور عدنان بھائی نیچے بچی کہتی پر بیٹھ گئے. میرا تھکن کے مارے براحال تھا  اوپر سے سے یہ لوگ ہم سے اس طرح ملاقات کر رہے تھے جیسے ہم کوئی حکومتی نمائندے ہوں یا ان کے لئے کوئی بہت بڑا خطرہ ہوں. مجھ کو پورا یقین ہے کے یہ لوگ ہمارے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں. دتہ خیل کوئی بہت بڑا علاقہ نہیں ہے جہاں کسی کے بارے میں جاننا مشکل ہو، اسی لئے مجھ کو پورا یقین تھا کہ یہ لوگ ٹیم آشیانہ، عدنان بھائی، کارکنان کے بارے میں سب کچھ جانتے ہونگے. پھر اتنی احتیاط کیوں؟
کچھ ہی دیر میں ایک (١) خوفناک شکل اور لمبا چوڑا انسان (انتہائی مکروہ شکل - الله معاف کرے) اندر آیا اور ہم کو سلام کیا ہم کو کھڑا ہونے کا کہا اور ہماری بہت بدتمیزی کے ساتھ تلاشی لی، اکرم بھائی نے دبے لفظوں میں احتجاج بھی کیا مگر وہ بعد تمیز انسان نہیں مانا. تلاشی کے بعد میرے پاس موجود کاپی اور پین لیتے ہووے مقامی زبان میں کچھ کہا جس پر اکرم بھائی نے اس سے بحث کرنا شروع کردی بات تلخ کلامی تک پہنچی تو عدنان بھائی نی مداخلت کری اور اردو میں کہا "اکرم بھائی، یہ کاپی اور پین ہے، لے لینے دو علم کی چیز ہے کسی نقصان کی نہیں. شاید ان کے کچھ کام آسکے." اکرم بھائی ایک دم چپ اور خاموش ہو گئے. (عدنان بھائی نے اپنی محنت اور اخلاص سے یہاں کے لوگوں میں بہت عزت بنا لی تھی اور آج اس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھ لیا). یہ بات میرے لئے انتباہ بھی تھی، اور ہوشیار رہنے کے لئے کہی گئی تھی.
تھکن بہت تھی میں نے خود ہی چائے نکال کر سب کو دی. خود بھی پی. تھودا فرحت کا احساس ہوا اور اب  لگ پڑی.   وہ بچہ جو چائے لایا تھا وہی ایک طرف کھڑاہوا تھا. پھرباہر کچھ شور ہوا، وہی مکروہ  شکل انسان (الله معاف کرے) اندر آیا اس دفع اس کے بات کرنے کا انداز الگ تھا، اکرم بھائی سے مقامی زبان میں کچھ کہا اور اکرم بھائی نے ہم کو چلنے کے لئے کہا. ہم اٹھ کھڑے ہوے میں دل ہی دل میں دوا کر رہا تھا کے بس میں جذباتی نہ ہوں اور میرے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکلے جس سے ہم میں سے کسی کو پریشانی ہو، (میں کسی بھی صورت میں ان لوگوں سے الجھنا نہیں چاہتا تھا). 
ہم ایک اور بارے حجرے میں لے جائے گئے یہاں کہتی پر نرم بستر لگے ہوے تھے. ہم آرام سے بیٹھ گئے میں خود کو پرسکوں رکھنے اور پیش کرنے کی کوشش کر رہا تھا. تھوڑا ہی دیر میں اس حجرے نما کمرے میں ایک ستہ ٦-٧ افراد داخل ہونا شروع ہوے. حلیے سے قبائلی کچھ بڑی عمر  کے لوگ تھے اور ٢ کی عمر ٢٠-٢٢ برس کی ہوگی. حلیے سے پڑھے لکھ اور با ادب لگ رہے تھے، ہم بھی اپنی جگہ سے کھڑے ہوے. نہایت ادب سے سلام کیا اور انہوں نے ہم کو گلے لگایا اور خوش آمدید کہا. سب سے پہلے ایک لڑکے نے جو ان کے ساتھ آیا تھا ہم سے اردو میں بات کرنا شروع کاری اور ہم کو ہوئی تکلیف پر معزرت کری (میں نی دل ہی دل میں کہا، پہلے  دہراتے ہو،تکلیف دیتے ہو پھر معزرت طالب  کرتے ہو،یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟) عدنان بھائی نے کہا "کوئی بات نہیں یہاں کے حالات کے مطابق آپ نے جو کیا وہی مناسب ہوگا"    
عدنان بھائی بھی کبھی کبھی ایسی بات کر جاتے ہیں جس کو سمجھنا کم از کم میرے بس کی بات نہیں. پھر اس لڑکے نے اپنے بارے میں بتایا وہ لڑکا اسلام آباد ا ایک تلمی ادارے سے ١٤ کلاس پڑھ کر آیا تھا اور انگریزی بھی اچھی خاصی بول رہا تھا، مجھ کو ہرات ہوئی کے یہ لڑکا ان لوگوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے. کاش کے میرے کو یہاں تصاویر کھنچنے کی اجازت ہوتی، کش کے مجھ کو یہاں کے حالات سہی سہی لکھنے کی اجازت ہوتی. (افسوس ہی افسوس). مجھ کو تو کچھ پوچھنے کی بھی اجازت نہیں تھی، ہم تو یہاں اپنی بات کرنے آے تھے، ان سے کیا پوچھتے؟
اکرم بھائی نے مقامی زبان میں کچھ کہا اور عدنان بھائی اور میری طرف اشارہ کر کہ کچھ کہا. پھر عدنان بھائی سے کہا کے آپ اپنے یہاں آنے کا مقصد بیان کریں. عدنان بھائی نے میری طرف اشارہ کیا اور اردو میں ہی بات شروع کری،
محترم بھائیوں، (میں نی کہا لو جی عدنان بھائی کی تقریر شروع)، مگر ایسا ہوا نہیں، ہم یہاں پچھلے کچھ برسوں سے فلاحی کام سر انجام دے رہے ہیں جن کی تفصیلات کے بارے میں آپ لوگ اور شمالی وزیرستان کے کچھ لوگ باخبر ہیں، میرے یہ دوست (میری طرف اشارہ کر کے کہا) کراچی سے تشریف لائے ہیں اور یہاں (دتہ خیل) کے بچوں میں تعلیم کی روشنی پھیلانا چاہتے ہیں. جس کے لئے آپ کی اجازت اور رہنمائی کی ضرورت ہے (میں نی ایک دفع پھر دل میں سوچا، کے ان سے کسی رہنمائی کی امید؟ ان کو تو خود ہی رہنمائی کی ضرورت ہے) اور زیر لب مسکرا دیا. (شاید میری مسکراہٹ کو کسی نے محسوس کیا ہو)، باقی بات میرے یہ دوست خود بیان کریں گے. پھر میری طرف اشارہ کر کے مجھ کو اپنی بات مکمل کرنے کے لئے کہا گیا (ایک اچھی بات یہ تھی کے ہماری بات چیت کے دوران کوئی بھی مداخلت نہیں کر رہا تھا، اس کے پیچھے کیا راز تھا یہ الله ہی جانے) میں نے عدنان بھائی کے انداز بیان کو اپناتے ہوے ایک دفع پھر سب کو سلام کیا، جس کا جواب سب نے با آواز بلند دیا، پھر میں نی کہا، "جیسا کے آپ سب ٹیم آشیانہ اور کارکنان کی محنت کے بارے میں جانتے ہی ہیں، میں یہاں صرف اتنا کہنے آیا ہوں کے ہم کو یہاں کے بچوں کے لئے ایک مدرسہ / اسکول کھولنے کی اجازت دیں جہاں ہم مقامی بچوں کو جدید علوم کے بارے میں آگاہی دے سکیں، میں یہ نہیں کہتا کے اسلامی تعلیمات چھوڑ دیں، مگر اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم کے بارے میں آگاہی ہونا بہت ضروری ہے. اور . . . . ایک بڑی عمر کے قبائلی نے مجھ کو اشارہ کر کے روک دیا. مجبورن مجھ کو چپ ہونا پڑا  (بعد میں پتا لگا کے یہ صاحب  یہاں کے جرگے کے رکن ہیں) انہوں نی سب سے کچھ باتیں کرنا شروع کریں یہ بات چیت مقامی زبان میں ہو رہی تھی. درمیان میں وہ عدنان بھائی اور میری طرف اشارہ کر کہ   کچھ کہتے اور اکرم بھی سے مقامی زبان میں کچھ پوچھتے جس کا جواب اکرم بھائی نہایت سکوں سے دیتے. (صبح کے وقت عدنان بھائی نے جس طرح کے شک اور شبے کا اظہار بلال محسود کے لئے کیا تھا پتا نہیں کیوں مجھ کوایسی ہی سوچ اکرم بھائی کے لئے آرہی تھی) میں نی لاہولولہ پڑھا. اور زمین کی طرف دیکھنے لگا. جب ان لوگوں کی بحث رکی تو عدنان بھائی سے کہا گیا کہ ہم لوگ تھوڑا انتظار کریں ایک اور صاحب آرہے ہیں ووہی کوئی فیصلہ کریں گے. اب کون آرہا ہے؟ یہی میں سوچنے لگا. (قسم سے، دل ہی دل میں خود کو کوس رہا تھا، کہ کس مصیبت میں پڑھ گیا ہوں، اچھا خاصا کراچی میں تھا، نوکری کر رہا تھا، شام میں دوستوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، زندگی کتنی سکوں سے گزر رہی تھی، یہاں آگیا ہوں جہاں مر بھی گیا تو کسی کو پتہ نہیں لگنے والا کے ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے) پھر اچانک دوسرے ساتھیوں کا خیال آیا کہ عدنان بھائی بھی تو کراچی والے ہیں، فریال باجی تو کینیڈا سے آتی ہیں، فیصل بھائی لاہور سے، ڈاکٹر نگہت پشاور سے اور بھی ساتھی، دوست دوسرے شہروں سے آتے ہیں ظاہر ہے زندگی صرف خود کے لئے جینے کا نام نہیں ہے، الله پاک مجھ کو نیک ہدایت دے میں یہ کیا الٹا سیدھا سوچ رہا ہوں. ہم کو انتظار کرنے کا کہا گیا اور ساتھ ہی کچھ لانے کا بھی کہا گیا، وقت کا پتا نہیں تھا ہمارے پاس گھڑیاں نہیں تھی اکرم بھی سے سرگوشی کر کے کہا کہ بھی بہت تھک گیا ہوں، یہ لوگ چاہ کیا رہے ہیں؟ ایسا لگ رہا ہے کے جیسے ہم کسی مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہیں. خدا نہ کرے، اگر ڈرون آگئی تو سب کے سب مارے جائیں گے اور پتا نہیں ہم کو کس نام سے  جاۓ؟ اکرم بھائی مسکرا دیے، ساتھ ہی عدنان بھائی بھی مسکرا دیے. تھوڑا دیر میں ایک لڑکا کچھ کھانے پینے کا سامان لے آیا. خوشبو سے لگ رہا تھا کے تازہ تازہ پکایا گیا ہے، بہت بھوک لگنے کے باوجود بھی میں نے کھانے سے انکار کر دیا مجھ کو کہا گیا کے تھوڑا چک لوں مگر میں نے  منع  کر دیا، میرے لہجے میں سختی بھی تھی اب اس وقت یہ تو نہیں کہ سکتا تھا کے میرا روزہ ہے مگر میں یہ کھانا کسی صورت نہیں کھانا چاہتا تھا کیوں کے آج میری فرمائش پر آشیانہ کیمپ میں آلو کا سالن بنا ہے اور مجھ کو پورا یقین ہے کے ہمارے ساتھ ہماری آمد تک کچھ نہیں خانے والے تو میں یہاں بیٹھ کر یہ گوشت، مرغ مسلم کیسے نوش کر سکتا تھا. (پتہ نہیں کیوں میں خود کو بہت طاقتور محسوس کرنے لگا) عدنان بھی نے تو کھانا ہی نہیں تھا کیوں کے ان کی طبیت سہی نہیں تھی) اکرم بھی نی مصلحتا ایک دو ٹکرے اٹھا کر چبا لئے. ہم کو بتایا گیا کے رات کے ١١ بجے سے اپر کا وقت ہو گیا ہے. یہ وقت سہی نہیں ہے، میں نی عدنان بھی سے کہا کے ہم کو اب چلنا چاہیے پتہ نہیں ان کے آنے والا کب تک آے گا، ہم کل دن میں  آکر ان لوگوں سے بات کر لیں گے. مگر اکرم بھائی نے کہا کے ہم اس طرح یہاں سے نہیں جا سکتے (میں بھی یہ بات بھول گیا تھا کے یہاں آتے اپنی مرضی سے ہیں اور جاتے ان لوگوں کی مرضی سے ہیں). بیٹھے رہے، چپ اور خاموش، میں سوچ رہا تھا کے کش میں کراچی سے آیے ہووے امی کے خط ہی پڑھ لیتا، یا ساتھ رکھ لیتا یہاں اب کرنے کو تو کچھ ہے نہیں، جب ان کے وہ (؟؟؟) آے گے تب جانے کیا ہوگا. مگر ہم کو زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا. تھوڑا ہی دیر میں سیکورٹی سخت ہونے کا اندازہ ہوا، حجرے کے اندر اور باہر روشنی بہت کم کر دی گئی. حجرے کے اندر ٥ (پانچ) نوجوان جدید اسلحے سے لیس داخل ہوے اور مختلف جگہوں پر ہوشیار ہو کر کھڑے ہوے، مجھ کو اکرم بھی کی دبی دبی آواز اور الفاظ سنائی دیے، پخیر  راغلے! یہ پشتو کے الفاظ ہیں اور پڑھنے والے سمجھ سکتے ہیں کے ان الفاظ کے کیا مطلب ہے؟ پھر مبارک سلامت کا ہلکا ہلکا شورسنائی دیا. حجرے کے اندر پہلے وہ لوگ داخل ہوے جن سے ہم پہلے ہی مل چکے تھی پھر ٢ (دو) بندوق بردار ہے ان کے پیچھے ایک نوجوان عمر ٢٨-٣٢ برس کے درمیان ہوگی، سرخ سفید چہرہ، سفید رنگ کے قمیض شلوار پہنا ہوا، آنکھوں میں سرما، سر پر سفید اور کالے رنگ کا عمامہ، پیر میں پشاوری چپل. (بہت جاندار شخصیت تھی) حجرے میں داخل ہوا. ہم سب ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑے ہوے. (اس بندے کا کیا نام تھا، یہ مجھ کو ابھی تک نہیں پتہ لگا، مگر اتنا یقین ہے کے یہ بندہ بہت اثر اور رسوق والا ہے) اس نے ہم سب سے بہت گرم جوشی سے ہاتھ ملایا، سلام کا جواب دیا اور ایک طرف بہت پرسکوں ہو کر بیٹھ گیا، رات کے اس وقت جب میں اور میرے ساتھ عدنان بھائی، اکرم بھائی بہت تھکے ہوے تھے یہ انسان ایسا لگ رہا تھا کے جیسے بلکل فریش ہے. ایک مقامی صاحب نے ہم کو بتایا کے ان کے سامنے ہماری پوری بات رکھی گئی ہے اور ابہ آخری فیصلہ انہوں نے ہی کرنا ہے. 
ہماری ان صاحب سے کیا بات ہوئی اس کا سب سے اچھا پہلو یہی ہے کہ ہماری بات کو بہت سکوں سے سنا گیا اور ہم کو کہا گیا کے ہم اپنے  آشیانہ کیمپ میں بچوں کو پڑھنے کے عمل کا آغاز کر سکتے ہیں لیکن اگر ہم کو کسی بھی قسم کی ایسی حرکت یا کام میں ملوث پایا گیا جو مقامی تہذیب، اور یہاں کے اصول، رسم اور رواج کے مطابق نہ ہوے تو ہم کو جرگے کے سامنا کرنا ہوگا اور ہم کو سزا دینے کے بعد  اس علاقے سے باہر نکال  دیا جاۓ گا. بحث کی یا اپنی بات کہنے کی اجازت نہیں تھی. ہم کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا کہ ہم صرف لڑکوں کو ہی پڑھائیں گے، کوئی لڑکی ہم سے پڑھنے نہیں آے گی. ہم کسی بھی طرح سے ان لڑکوں کو مقامی تہذیب، رسم اور رواج، اسلام کے منافی تعلیم نہیں دیں گے اور نہ ہی ایسی کتابیں تقسیم کریں گے جس سے یہاں کے لوگوں میں آپس میں سوچوں کا ٹکراؤ ہو. اور ہم کو کسی بھی وقت جرگے والے یا مقامی بڑے لوگ چیک کرنے آسکتے ہیں جس کے لئے ہم کو ان لوگوں سے ہر ممکن رابطہ رکھنا ہوگا اور ان کے ہر سوال کا جواب دینا ہوگا. اور بھی کچھ سخت باتیں کہی گئی. کچھ لوگوں نے ہم کو بیرونی ممالک کا ایجنٹ بولا تو کسی نے ہم کو پاکستانی اداروں کا ایجنٹ. اور بھی بہت کچھ (جو کچھ بھی کہا گیا بہت عزت دے کر کہا گیا) اور ہم کو یہ بھی بتا دیا گیا کے ہمارے ہر ہر کام پر ان لوگوں کی نظر ہے. اکھڑ میں اس آدمی نے ایک دفع پھر (منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوے) ہم سے کسی بھی قسم کی ہوئی تکلیف پر معذرت مانگی، اپنے بندوق بردار ساتھیوں سے کچھ (مقامی زبان میں) کہا، اور ہم سے اجازت لی وہ خود تو کھڑا نہیں ہوا اکرم بھائی نی اشارہ کیا کے ہماری ملاقات مکمل ہوئی. (میں اس ملاقات سے مطمئن نہیں ہوں، ہماری بات پوری طرح نہیں سنی گئی، نہ ہی ہم جو چاہتے ہیں وہ سنا گیا، بس اپنے ہی لوگوں کی باتیں سن کر ہم کو پابند کر دیا، یہ  غلط ہے) میں نی ان جذبات کا اظہر انگریزی زبان میں عدنان بھی سے حجرے سے نکلتے وقت کیا تو پہچے سے ایک صاحب کی آواز آئ کہ "اگلی ملاقات میں آپ کے سارے شکوے دور کر دے جائیں گے." (مطلب یہاں کسی نے میری انگریزی میں کہی ہوئی بتا کو سمجھ لیا ہے. ہم بندوق برداروں کے پیچھے پیچھے ٢٥-٣٠ منٹ تک چلتے رہے،  ایک دفع پھر ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی. تھکن تو تھی مگر اس ملاقات میں ہوئی تشنگی نے میرا دماغ ہلا کر رکھ دیا تھا. (پتہ نہیں عدنان بھی کس طرح خود کو قابو کرتے ہیں یہی سوچ رہا تھا) ہم لوگ دتہ خیل کی مقامی مسجد تک واپس آے جہاں ہم کو بندوق برداروں نے الوداع  کیا اور یہاں سے ہم اپنی مدد آپ کے تحت اکرم بھائی کی رہنمائی میں آشیانہ کیمپ کی طرف  بڑھنے لگے.

اب جب میں یہ ڈائری لکھ رہا ہوں، تو دل خون کے آنسو رو رہا ہے، میں خود کو ایک بند گلی میں محسوس کر رہا ہوں، یہاں فلاحی کام کرنا بھی بہت مشکل ہے، کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ہماری آس بنے، ہم کو سہارا دے، ہم کو مضبوط کرے، یہاں صرف ان لوگوں کی حکمرانی ہے جن کے پاس طاقت ہے، کمزور لوگ محکوم ہیں اور ان لوگوں کے ہر طرح کے فیصلے قبول کرنے کے پابند ہیں. ایسے میں یہاں کوئی کیسے علم اور تعلیم کی روشنی پھیلا سکتا ہے.  مجھ کو ایک چھوٹا سا اسکول چلانے کے لئے اتنی باتوں کا پابند کر دیا گیا ہے جیسے خدانخواستہ میں یہاں کوئی عیسائی تبلیغی مشن چرو کرنے والا ہوں، یا یہاں کے رواج کے مخالف میں کوئی مہم شروع کرنے والا ہوں. میں تو صرف یہاں کے بچوں کے لئے سوچ رہا ہوں، کے آخرکب تک یہ بچے ایسے ہی پھرتے رہیں گے؟ ان بچوں کا مستقبل کیا ہے. آج مجھ کو سبق صدر پاکستان پرویز مشرف اور آج کے چیف آف آرمی اسٹاف پرویز کیانی صاحب کی وہ بات بہت شدت سے یاد آرہی ہے جو ان دونوں نے ہی کہی تھی کہ، "ان  علاقوں (شمالی اور جنوبی وزیرستان) میں فوجی آپریشن خوشی سے نہیں کیا گیا بلکہ بہت مجبوری میں کیا جا رہا ہے، جس کے لئے پوری قوم کو افسوس ہے." ظاہر ہے جب حالات یہاں تک پہنچ جائیں جب حکموتی رٹ قائم نہ رہے، طاقتور اپنی طاقت کے بل پر حکومت کرنا چاہئے اور معصوم لوگوں کو اپنا غلام بنا لے (جیسا یہاں شمالی وزیرستان) میں دیکھا جا سکتا ہے تو اور کیا ہوگا. پاکستان کو قائم رکھنا ہے اور مسلمان کو مزید شرمندگی سے بچانا ہے تو ہم کو ایسے نام نہاد طاقتور لوگوں سے جان چھڑانا ہی ہوگی. اس کے لئے یہاں اگر فوجی کاروائی کی جاتی ہے تو یہاں کے مقامی لوگوں کو بھی ساتھ  شامل کرنا ہوگا، یہاں کے لوگ خود بہت پریشن ہیں، اور تھک گئے ہیں. ان لوگوں کو سہارا ملے تو یہ خود ہی ان طاقتور لوگوں کے خلاف اٹھ کھڑے  ہونگے.

اس ملاقات میں مجھ کو بہت کچھ دیکھنے، سیکھنے اور سمجھنے کو ملا. ہو سکتا ہے کے میں یہاں سے واپس کراچی جا کر یہاں کے حالات پر اور  لکھ سکوں، فلحال جتنا لکھا ہے اگر میرے دوست (ٹیم آشیانہ کے ساتھ) ووہی لکھ کر بلاگ اور ایمیل کر دیں تو بہت ہوگا. 
اس ملاقات سے واپس آیا تو پتا لگا کے کافی رات ہو چکی ہے، بھوک اور تھکن سے حالت بری تھی، جلدی جلدی کھانا کھایا اور جس کو جہاں جگہ ملی وہی پر کر لیٹ گیا. میں نی جلدی جلدی ڈائری لکھ  ڈالی ہے،پتہ نہیں کل کیا ہو. ابہ سونے کے لئے لیٹ رہا ہوں. 
ہاتھ میں امی کا بھیجا ہوا خط ہے  مگر پڑھنے کی  ہمت نہیں،سینے پر خط رکھ کر لیتا ہوں اور امی کو اپنے ساتھ محسوس کر رہا ہوں. 
انشا الله کل کی ڈائری کے ساتھ حاضر ہونگا.
آپ سب کی دعاؤں کے محتاج 
ٹیم آشیانہ، شمالی وزیرستان.

========================================================================
نوٹ:
  • ٹیم آشیانہ کی یہ ڈائری پڑھنے والے زیادہ تر پاکستانی ہیں یا اردو جانتے ہیں اسی لئے یہ ڈائری اردو میں لکھی جا رہی ہے. مزید اس ڈائری کو انگریزی میں ترجمہ کر کے دینا چاہیں تو وہ بھی یہاں لکھ دی جاۓ گے. 
  • ایسے دوست جو اس ڈائری کو انگریزی میں لکھ کر دینا چائیں وہ ہم سے فوری رابطہ کریں.
     waziristan.dairy@gmail.com
  • وزیرستان ڈائری، ٹیم آشیانہ کے ایک کارکن کی آپ بیتی ہے جس کو لکھنے کی اجازت ٹیم آشیانہ کے کارکنوں کے مشورے سے دی گئی ہے. اس ڈائری کو پبلک کرتے وقت ہم کو حفاظتی اقدامات کے تحت کچھ باتوں کو ایڈٹ کرنا  پڑتا ہے.ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کے ڈائری کا اصل مفہوم پڑھنے والوں کو سمجھ میں آتا رہے.
  • اگر کوئی دوست یا ساتھ ڈائری لکھنے والے کارکن سے رابطہ کرنے چاہے تو وہ بھی اپر دی گئی ایمل کر کے رابطہ کر سکتا ہے.
  • ٹیم آشیانہ کو آپ کے مشوروں اور دعاؤں کی ہمیشہ ضرورت  رہتی ہے.
جزاک الله 
ٹیم آشیانہ، شمالی وزیرستان